ٹیلی فون سے مراسلے تک کچھ بھی نہیں بدلا

امریکہ کی طرف سے پاکستان کے حکمران جنرل مشرف کو دھمکی آمیز ٹیلی فون کو اکیس برس کا عرصہ گزر گیا مگر یوں لگتا ہے کہ وقت تو بدلا مگر ذہنیت نہیں بدلی ۔اکیس سال بعد ایک مراسلے میں وہی ٹیلی فونک ذہنیت ایک با ر پھر چھلک پڑی ہے ۔ماضی کے ٹیلی فون کی طرح یہ مراسلہ بھی اب مدتوں تک پاکستان کی سیاست کو متاثر کرتا رہے گا ۔اس سے پاکستانی معاشرے کی تقسیم تو گہری ہوگئی مگر اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کیا اثرات پیدا کرتی ہے ،یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔حکومت پاکستان کو امریکہ کی طرف سے بھیجے گئے دھمکی آمیز خط کا معمہ اس وقت حل ہوگیا جب نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں سول اور ملٹری قیادت نے اس خط کا جائزہ لیا اور اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا ۔اس کے ساتھ ہی امریکہ سے احتجاج کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ۔اجلاس کے تھوڑی ہی دیر بعد امریکہ کے قائمقام سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر اس مراسلے پر احتجاج کیا گیا۔ دوسری طرف وائٹ ہائوس کے ترجمان نے اس مراسلے کی صحت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو کوئی دھمکی نہیں دی اور عمران خان کی طرف سے اپنی حکومت کے خلاف امریکہ کے ہاتھ کے الزامات غلط ہیں۔عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں بھی امریکہ کی طرف سے دھمکیوں کا ذکر کیا ۔دوسرے روز انہوں نے ایک سمینار میں انہوں نے کہا کہ ایک بڑی طاقت دورۂ روس سے ناخوش ہے۔چین کی طرف سے پاکستان کی سیاسی کشیدگی پر بہت محتاط انداز سے تبصروں کا سلسلہ جا ری ہے ۔جن میں ایک تبصرہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرد جنگ کا ماحول پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا۔عمران خان کی جان کو خطرے کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں اور اس دوران ان کی مصروفیات کم اور سیکورٹی بڑھادی گئی ۔ ابھی تک کم ازکم یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ امریکہ کی طرف سے دی جانے والی دھمکی ایک مراسلے کی صورت میں پاکستان پہنچی ہے اور اس میں پاکستان کے اندر تحریک عدم اعتماد کا حوالہ بھی دیا گیا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو نیشنل سیکورٹی کمیٹی اس پر نہ تو غور کرتی اور نہ بھرپور ردعمل ظاہر کرتی۔اب اس دھمکی کی حقیقت کھل کر رہ گئی ہے۔یہ تقریباََ دھمکی کا وہی انداز ہے کہ جو امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے ٹیلی فون پر جنرل مشرف کو دیا تھا ۔جس کے جواب میں جنرل مشرف نے اتنی جلدی ”ہاں ” کر دی تھی کہ خود امریکی حیران رہ گئے تھے۔ بعد میں امریکی ایسی کسی بھی دھمکی کی تردید کرتے رہے مگر جنرل مشرف اب بھی بقید حیات ہیں اور دھمکی کی تصدیق کررہے ہیں ۔اسی طرح امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان بھی پچھلی صدی کے سفیر نہیں بلکہ ان کو جو کچھ بتایا گیا وہی من وعن انہوں نے وزرات خارجہ تک پہنچا دیا ۔اس میں اگر اسد مجید نے کوئی بات زیب ِداستاں کے لئے بڑھائی ہے تو ان کی انکوائری ہو سکتی ہے کہ کس طرح انہوںنے دوملکوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کر دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا پیغام دینے کا یہی پرانا انداز ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ امریکہ کا” رجیم چینج” یعنی حکومتوں کے تختے اُلٹا ۔حکمرانوں کے خلاف بغاوتیں کھڑی کرنا ۔مسلح مزاحمت کے شعلے بھڑکا نااور آخری چارہ کار کے طور پر انہیں راہ سے ہٹانا شامل ہوتا ہے ۔پاکستان میں لیاقت علی خان ،ذوالفقا ر علی بھٹو اور ضیاء الحق کے قتل ایسے ہیں جہاں ڈور کا سرا امریکہ میں جا کر ملتا ہے ۔راہ سے ہٹانے کا انداز ہر مقام اورموقع کی مناسبت سے جداگانہ ہوتا ہے۔پاکستان کی داخلی سیاست کیا رنگ او ررخ اختیار کرتی ہے یہ یہاں کا داخلی معاملہ ہے مگر امریکہ کو یوں دھمکی آمیز انداز اپنانے کی اجازت ہر گزنہیں ملنی چاہئے ۔ہر ممکنہ طریقے سے امریکہ کو یہ باور کرانا چاہئے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے امریکہ کی باجگزار ریاست نہیں اور یہ ایٹمی طاقت بھی امریکہ کی مہربانی سے نہیں اس کی نظریں بچا کر اور مخالفت وپابندیوں کے باوجود حاصل کی گئی ہے ۔اس میں امریکہ کا انعام واکرام شامل نہیں۔امریکہ نے پاکستان پر جب انعام اکرام کی برسات کی ہے تو اس کے بدلے پاکستان کی سکت اور طاقت سے زیادہ کام لیا ۔جب یہ کام نکلا تو یوں بھلا دیا کہ گویا جانتے ہی نہیں۔امریکہ نے پاکستان کو اگر اسلحہ دیا تو یہ کاروبار تھا ۔سوائے پچاس کی دہائی میں امریکی گندم اور ستر کی دہائی میںطلبہ کے لئے امریکن آٹا،خشک پاوڈر اور گھی مفت اور خیرات میں ملا ہے۔اس کے سوا امریکہ کا پاکستان کے عام آدمی پر کوئی احسان نہیں ۔ہاں سول اور ملٹری اشرافیہ اور حکمران طبقات امریکہ کے ممنون احسان ضرور ہیں کہ جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد نوکریاں ملتی ہیں ۔جنہیں نجانے کن خدمات کے عوض گھر اور فارم ہائوس اور جزیرے ملتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند