p613 314

پابندی قانونی مگر مؤثر کتنی ہوگی؟

ملک کے مختلف شہروں میں تین روز سے جاری پُرتشدد احتجاج کے بعد وفاقی حکومت کو بالآخر بامر مجبوری تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ پابندی کی قرارداد حکومت پنجاب کی جانب سے آئی تھی جس کی سمری منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کو ارسال کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو معاہدہ کیا اس پر قائم تھے اور ہیں لیکن جس مسودے کا تقاضا وہ کررہے تھے وہ اس ملک کو دنیا میں انتہا پسند ملک کا نام دیتا، جس کیلئے ہم تیار نہیں تھے۔ ہم شائستہ اور پارلیمانی زبان میں وہ قرار داد لا رہے تھے جو انہوں نے یکسر مسترد کردی۔انہوں نے کہا کہ تمام کوششوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ ہر صورت میں فیض آباد چوک اسلام آباد آنا چاہتے تھے اور ان کی بڑی لمبی تیاری تھی۔واضح رہے کہ ٹی ایل پی نے فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر رواں سال فروری میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کیساتھ احتجاج کیا تھا۔حکومت نے16نومبر کو ٹی ایل پی کیساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کیلئے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب16فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کیلئے مزید وقت مانگا۔جس پر ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی20اپریل تک اپنے احتجاج کومؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔اس حوالے سے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز سعد رضوی نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈلائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کیلئے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں گزشتہ روز گرفتار کرلیا تھا۔ ٹی ایل پی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگئے جنہوں نے بعض مقامات پر پر تشدد صورتحال اختیار کرلی۔مشکل امر یہ ہوگئی ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی مقاصد کیلئے اس طرح کی تنظیمیں درپردہ رہ کر بنانے اور پھر ان کی طاقت پکڑنے کے بعد ان سے سختی سے نمٹنے کی روایت کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔ تحریک لبیک کا قیام اور اسی تنظیم کے فیض آباد دھرنے کے شرکاء سے سلوک و سرپرستی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ اصولی طور پر ان سے حکومت کو ایسا کوئی سمجھوتہ کرنا ہی نہیں چاہئے تھا جو مناسب نہ تھا اور اس پر عملدرآمد کی گنجائش نہ تھی مگر یہ غلطی ہوچکی۔ جو گرہ ہاتھوں سے کھولنا تھا اب اسے دانتوں سے کھولے بغیر چارہ نہیںتھا، بہرحال اس کے بغیر شاید کوئی چارۂ کار بھی نہ تھا۔ پابندی کی تجویز اگرچہ پنجاب حکومت کی طرف سے آئی ہے تاہم درپردہ ایف اے ٹی ایف اور اس جیسے فورمز کا دباؤ اور عندیہ بھی ناممکن نہیں۔ گزشتہ تین روز ملک میں امن وامان کی جو صورت رہی اس سے قطع نظر ایک ایسے نعرے پر جو بلاامتیاز مسلک ہر مسلمان کا عقیدہ اور جذبات کا تقاضا ہے ایسے میں یہ پابندی کسی ایک تنظیم اور گروہ سے بڑھ کر محسوس ہونا فطری امر ہے۔ بہرحال حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ امن وامان کی صورتحال کو بگڑنے نہ دے اور ضرورت پڑنے پر کسی تنظیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔ آئین کے تحت وفاقی حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کی سرگرمیوں کو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔ جب کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگتی ہے تو اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔سپریم کورٹ بھی اگر وفاقی حکومت کے فیصلے کو درست قرار دیدے تو وہ پارٹی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ جماعت انتخابات میں حصہ لینے کی اہل بھی نہیں رہتی۔اس کے باوجود کسی بھی تنظیم یا جماعت کو مکمل طور پر کام سے روکنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ پاکستان میں نام بدل کر کام کرنے پر پابندی کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ایک دو ڈمی ناموں کی رجسٹریشن کرا رکھی ہوتی ہے کہ پابندی کی صورت میں وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔یاد رہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے2018میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا تھا اور پنجاب کے ہر دوسرے حلقے میں ان کے اُمیدوار تیسری پوزیشن پر موجود تھے جبکہ سندھ اسمبلی کی دو نشستوں پر تحریک لبیک کو کامیابی بھی ملی تھی۔ تحریک لبیک پاکستان اپنے مخصوص طرز تحریک اور سرپرستی کے باعث ملکی سطح پر جو مقام حاصل کر چکی ہے انتخابی نتائج اس کے گواہ ہیں۔ کابینہ کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد اسے کالعدم قرار دیا جائے تو نام اور کسی حد تک تحریک کی حد تک تو اس کی سرگرمیوں میں رکاوٹ آئے گی لیکن اسے عملی طور پر ملکی سیاست اور مذہبی پلیٹ فارم سے نکالنا ممکن نہ ہوگا، جس طرح کے تشدد اور ماضی میں اس کے پرجوش حامیوں نے جس طرح کا سخت ردعمل دے کر بعض آوازوں کو خاموش کر دیا تھا اس کے تناظر میں اس کا دوسرا ایم کیو ایم بننے کا بھی خطرہ ہے جس پر حکومت اور ملکی اداروں کو کڑی نظر رکھنا ہوگی۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں