پلوامہ حملہ ،سابق گورنر کشمیر کا انکشاف

مقبوضہ کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے دی وائر کے صحافی کرن تھارپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پلوامہ حملے کے بعدنریندر مودی اور ان کے مشیر قومی سلامتی اجیت دوال نے انہیں خاموش رہنے کو کہا تھا جس سے انہیں اندازہ ہوا کہ یہ سار ا معاملے پر پاکستان کے رخ موڑنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ستیہ پال ملک نے دبے لفظوں میں یہ اقرار کیا کہ اس واقعے سے نریندر مودی کو انتخابی فائدہ ہوا ۔ ستیہ پال ملک نے پلوامہ حملے کے حوالے سے کئی مشکوک اقدامات اور لاپرواہی کے رویے کا ذکر بھی کیا جن میں ایک یہ بھی ہے کہ فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد کو منتقل کرنے کے لئے فضائی راستہ اختیار نہیں کیا گیا اور جہاز فراہمی کی درخواست کو نظر انداز کیا گیا ۔ستیہ پال ملک کی اس گفتگو سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نریندرمودی کا تیار کردہ ڈرامہ تھا ۔اس واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے سوال کا انہوںنے صرف اس حد تک اثبات میں جواب دیا کہ اتنا بارودی مواد پاکستان کی مدد کے بغیر نہیں آسکتا تھا ۔سوال یہ ہے کہ جو مودی انتخابات کے لئے اس قدر بڑا ڈرامہ رچا سکتا ہے اس کے لئے بارودی مواد فراہم کرنا کون سا مشکل ہے۔ستیہ پال ملک پلوامہ حملے کے وقت مقبوضہ کشمیر کے گورنر تھے اور انہی کے دور میں چند ماہ بعد ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرکے عوام کو بدترین لاک ڈائون کا شکار کیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرکے اسے ایک ہندواکثریتی آبادی میں بدلنا بھارت کا دیرینہ خواب اور منصوبہ تھا ۔یہ منصوبہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو پرائیوٹائز کردیا گیا تھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے برسوں سے کوشاں تھی ۔نریندر مودی نے وقت کو موافق اور مناسب سمجھ کر کشمیر کی خصوصی شناخت پر جھپٹ پڑنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک طریقہ کار اور جوا ز ہونا بھی ضروری تھا ۔مودی کو یہ خدشہ تھا کہ پاکستان اور چین اس پر شدید ردعمل ظاہر کریں گے جو باقاعدہ جنگ پر بھی منتج ہو سکتا ہے ۔اسی لئے مودی نے عرب ملکوں سے امریکہ تک مدد حاصل کررکھی تھی ۔جس کا مقصد پاکستان اور چین کے ردعمل کو کنٹرول کرنا تھا مگر پاکستان اس سرگرمی پر کوئی عسکری ردعمل نہ دکھا سکا ۔کشمیر کی خصوصی شناخت پر حملہ بھارتیوں کے لئے اس قدر بڑا مقصد تھا کہ جس کی خاطر انہیں اپنے چالیس فوجی بھی قربان کرنا زیادہ مہنگا سودا نہیں لگا۔اسی لئے بالی ووڈ کے فلمی سین کی طرح پلوامہ حملہ ترتیب دیا گیا اور فوجیوں کی لاشوں پرجس طرح نریندر مودی فوٹو شوٹ کرتے رہے وہ اس سارے عمل کو مشکوک بنانے کے لئے کافی تھا ۔نریندر مودی نے اس واقعے کو اپنی مقبولیت کے لئے استعمال کیا اور پھر جب وہ اس مقبولیت کی بنیاد پر دوبارہ وزیراعظم بنے تو پہلی فرصت میں ہی مودی نے کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کردی ۔اس حوالے سے جس شخص نے بھی سوال پوچھنے کی کوشش کی ستیہ پال ملک کی طرح اس کا منہ بند کرادیا گیا کیونکہ مودی پاکستان مخالف اور جذباتی فضا بنا کر انتخابی فائدہ سمیٹنا چاہتا تھا ۔اس انتخابی کامیابی نے ہی مودی کو وہ اعتماد دیا جس کے بعد وہ کشمیر کی شناخت کے خاتمے کا سخت فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں آیا ۔ایک مشکوک ڈرامے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی اسی لاکھ آبادی کو گھروں میں محصور کردیا گیا اور طویل ترین لاک ڈائون کے ذریعے ان کا بیرونی دنیا سے رابطہ کاٹ دیا گیا ۔انٹرنیٹ جیسی سہولت سے کشمیریوں کومحروم کر دیا گیا ۔ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا اور یہ لوگ اب بھی بھارت کی جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔پلوامہ حملہ حقیقت میں بھارت کی چانکیائی سیاست کا ایک ثبوت ہے جس کے تحت کشمیر پر مکمل انتظامی اور نظریاتی کنٹرول جیسے بڑے مقصد کی خاطر اپنے چالیس فوجیوں کی چھوٹی قربانی بھی دی جا سکتی تھی ۔یوں لگتا ہے کہ پلوامہ کے جس واقعے کو مودی نے گزشتہ انتخاب میں اپنی کامیابی کے زینے کے طور پر استعمال کیا تھا آمدہ انتخابات میں یہ پلوامہ حملہ اس کے سیاسی بُت پر سنگ باری ثابت ہوگا کیونکہ اب بھارت میں لوگ پلوامہ حملے کی حقیقت کے بارے میں سوال اُٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔ایک طرف مودی ان رویوں کے حوالوں سے دنیا بھر میں متعارف ہو رہا ہے تو دوسری جانب جی ٹونٹی ممالک کے کشمیر میں بھارتی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔جی ٹونٹی ملکوں کی اکثریت ان مغربی ملکوں پر مشتمل ہے ۔جو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں ۔ان ملکوں نے دنیا میں ہر جگہ جمہوریت شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کا سبق پڑھانے اور سودا بیچنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔جب بھی انہیں کسی ناپسندیدہ ملک میں ان آزادیوں پر قدغن لگتی محسوس ہوتی ہے تو یہ دوڑے دوڑے اقوام متحدہ میں پہنچتے ہیں اور وہاں انسانیت کی دُہائی دے کرایسے ناپسندیدہ ملک پر پابندیاں عائد کرتے ہیں ۔افسوس یہ ہے کہ ان کی یہ ساری پھرتیاں اور انسان دوستی ایک مخصوص رنگ اور جلد کے لئے ہوتی ہیں ۔یہ مرضی کی انسانیت اور مرضی کی جمہوریت انسانیت کے حقیقی مسائل کا حل ثابت نہیں ہو سکی ۔یوکرین کی حالیہ جنگ نے اس دوہرے میعار کو مزید بے نقاب کیا ۔یوکرین کی سفید فام یورپی آبادی روسی حملے کی زد میں آئی تو مغرب کو ایک مقدس جنگ کا خیال آگیا ہے حالانکہ اب مغرب نے کسی بھی مقام پر پرائیویٹ اوررضاکاروں کی لڑائیوں کو دہشت گرد ی سے جوڑ رکھا تھا مگر یوکرین میں روس کے حملے کے بعد ہی مغرب وہ تمام اصول ترک کردئیے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اپنائے گئے تھے ۔اس جنگ کا ہدف چونکہ مسلمان آبادیاں اور تہذیب تھی اس لئے پیمانے اور تھے جب حالات نے پلٹا کھایا اور یوکرین میں ایک نئے انداز کی جنگ چھڑ گئی تو مغرب نئے اصولوں کے ساتھ سامنے آگیا ۔یوکرین کی جنگ کو مقدس جنگ کے طور پر لڑا جانے لگا ۔یوکرین کی جنگ کے ایسے دلدوز مناظر میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے لگے جو کشمیر اور فلسطین میں اکثر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں عمارتوں کا ملبہ ،بے گوروکفن لاشیں اور سوختہ گھر شامل ہوتے ہیں۔مجال ہے کہ مغرب کے ضمیر نے ان تصویروں پر کبھی ہلکی سے جھرجھری لی ۔کشمیر انسانیت کی قتل گاہ بن چکا ہے جہاں نہ انسانی حقوق کا گزر ہے نہ شہری آزادیوں کے آثار جمہوریت ہے اور نہ ہی میڈیا کا کوئی وجود اور یہ سلسلہ برسہا برس سے جاری ہے ۔بھارت نے کشمیریوں کی نمائشی خود مختار ی اور شناخت بھی ان سے چھین لی ہے ۔اس مقتل میں بھارت نے سری نگر میں جی ٹونٹی ملکوں کی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ مغربی ممالک خوشی خوشی اس مقتل میں بھارت کے رچائے گئے ناٹک میں شریک ہوں گے۔ بھارتی حکومت اگلے ماہ کے اواخر میں سری نگر اور لہہ لداخ میں جی ٹوئنٹی ملکوں کی کانفرنس کے سیاحت اور نوجوانوں سے متعلق دو اجلاسوں کے انعقاد کی تیاریاں کر رہی ہے ۔جموں وکشمیر اور لداخ کے ساتھ ساتھ اس کانفرنس کے انعقاد کے لئے ارونا چل پردیش کا انتخاب کیا گیا ہے ۔یہ دونوں علاقے اپنے اپنے انداز سے متنازعہ ہیں ۔کشمیر تو بین الاقوامی طور پر ایک متنازعہ مسئلہ ہے جس کی فائل اقوام متحدہ میں موجود ہے اور ہر سال اس کیس کی تجدید ہوتی ہے ۔بھارت اقوام متحدہ کی تمام کارروائیوں میں خودبھی کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرچکا ہے۔اقوام متحدہ سمیت دنیا کا کوئی بااثر یا کمزور ملک کشمیر کو بھارت اٹوٹ انگ نہیں سمجھتا ۔جب بھی کوئی غیر ملکی سفارت کار یا سربراہ کشمیر کی بات کرتا ہے تو وہ اس مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے کی بات کرتا ہے ۔پاکستان کی حکومت اس وقت جس کمزور پوزیشن میں ہاتھ باندھے بیٹھی ہے اس میں نریند ر مودی کے حوالے سے اپنے لوگوں کے انکشافات کو اُبھارنے پر کوئی توجہ نہیں دے سکتی ۔حقیقت میں ستیہ پال ملک کی گواہی اتنی بڑی ہے کہ اس پر مودی کو دنیا میں تنہا کیا جا سکتا ہے ۔یہاں تو نائب وزیر خارجہ حنا ربانی کھر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے ساتھ ملاقات میں نہایت مدافعانہ انداز میں اپنے ملک کے چھوٹا ہونے کی تاویلات پیش کر رہی ہیں ۔جس پر سرگئی لاروف کو کہنا پڑا کہ ملک چھوٹا یا بڑا ہونے سے فرق نہیں پڑتا ہم دوست ہیں۔ احساس کمتری پر مبنی اپنے چھوٹا ہونے کی ذہنیت اور سوچ کے ساتھ دنیا میں بڑے ملکوں کی کامیابیوں کو ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار