پیر آپ درماندہ ہیں

گو کہ دونوں ممالک ایشیائی ہیں مگر اس وقت دونو ں ایک ایسے دو راہاپر کھڑے ہیں جو ایک عالمی تاریخ رقم کر نے کی طر ف بڑھ رہے ہیں ان میں ایک جمہوریہ ترکیہ اور دوسرا پاکستان ہے یہ دونو ں نہ صر ف اسلا می ملک ہیں بلکہ جغرافیائی لحاظ سے مغرب کی دکھتی رگ بھی ہیں ، چنا نچہ اپنے دینی تقاضوں کی بنیا د پر بھی اور جغرافیائی اہمیت کی بنا ء پر بھی اس وقت مغربی طاقتیں اور عالمی طاقتیں ان دونو ں خطوں میں اپنے مفادات کے رنگ بکھرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں کیوں کہ عالمی سیا ست میں ایک بھونچال درپے ہے کہ صیہونیو ں کے پنجہ جکڑی ہوئی مغربی دنیا متوقع تبدیلی سے خوف زدہ ہوچکی ہے کیو ں کہ سامنے ایک نیا طاقت ور عالمی گروہ سر اٹھارہا ہے جس کا طاقت بھی ایشیا سے ہے ، یو رپ اور امریکا دونو ں خطے غیر زرعی اور غیر قدرتی وسائل سے دوچا ر ہیں ان کے لیے ایشیا ایک خام مال کا ذریعہ ہے کیو ں کہ ٹیکنالوجی جس پر مغرب کی بقا ء کا دارو مدار ہے اس پر اجا رہ داری صرف صہیونیو ں کی ہے اگر یہ ایشیائی بلا ک جو فی الحال چین ، روس ، پاکستان ، ایر ان ، سعودی عرب ، اور بعض وسطی ایشیا کے ممالک کی صورت میں ہو تا پارہا ہے اس نے دنیا میں ڈالر کی آمر یت کے ایو انوں کو لرزہ دیا ہے ، اسی طرح ایشیا کو ایک اور ملک جس کو ہنو ز مغرب کا مرد بیما ر کہا جا تا ہے یعنی جہو ریہ ترکیہ وہ بھی امسال ایک ایسی تاریخ کے دھا نے پر پہنچ رہا ہے جو نہ صرف مغربی طاقتوں کی ایشیا پر تسلط کی دیو ار کو ڈھا دے گا بلکہ ایک نئی قوت بن کر ابھر ے گا چنا نچہ پوری مغربی دنیا نے نظریں ترکیہ کے انتخابات پر گڑھ رکھی ہیں ، چنا نچہ ترکیہ کے انتخابات کا ایک مر حلہ گزشتہ روز مکمل تو ہوا لیکن فیصلہ کن نہ رہا چنا نچہ 28مئی کو انتخابات کا ایک دور اور ہوگا کیو ںکہ ترکیہ کے آئین کے مطا بق کسی صدارتی امیداور نے پچا س فی صد حق نیا بت پورا نہیں کیا ، پہلے نمبر پر آنے والے رجب طیب اردغان کے کل ووٹوں کی نسبت 49.3فی صدر رہی ان کے قریب تر مدمقابل قلیچ داراوغلو کو 45فی صد ووٹ حاصل ہو سکے ، جبکہ انتخابات میں نوے فی صد ووٹر ز نے اپنا حق نیا بت استعمال کیا ، تقریبا ً1923جب سے ترکیہ ایک لا دینی ریا ست کے روپ میں آیا ہے پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات کا فیصلہ اجرای انتخابات (run of electino ) میں ہوگا ، گزشتہ روز کے انتخابات کے دوران قلیچ داراوغلو کی جانب سے برتری کا دعویٰ کیا گیا تھا جس کا دعویٰ مغربی میڈیا کی جا نب سے خوب کیا جا رہا تھا، تاہم امید کی جا تی ہے کہ دوسرے مرحلے کے انتخابات میں طیب ارد غان میدان ما رجائیں گے ، کیو ں کہ عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے کہ طیب اردغان کو ترکیہ کے غیر سیکو لر نظام کے حامی عوام کی حمایت حاصل ہے کیو ں کہ طیب اردغان نے اپنے دور میں ترکیہ کو نہ صرف داخلی طور پر ایک مستحکم ریاست بنا نے میں کر دار ادا کیا بلکہ عالمی منظر میں بھی ایک طاقت ور ریا ست اور مضبوط سیا سی قوت بنا دیا ہے ، ترکیہ اس وقت بھی شام سے یو کرین تک پھیلے ہوئے خطے کے تنا زعات میں ایک اثر ورسوخ والی ریا ست کا کر دار ادا کررہا ہے او
ر بین الا قوامی معاملات میں بھی اس کا منفرد و ٹھو س موقف پایا جا تا ہے ، علا وہ ازیں روان سال ترکیہ کے لیے ایک نئے جنم کا دن بھی قرار پارہا ہے ، کیو ںکہ عالمی جنگ کی وجہ سے ترکیہ کو امریکا سے سو سالہ معاہد ہ کر نا پڑا تھا جو 23نو مبر کو اپنے انجا م پر پہنچ جا ئے گا جس کے بعد ترکیہ پر اس سوسالہ معاہد ے کی وجہ سے عائد تما م پا بندیو ں کا خاتمہ ہو جائے گا پھر اس کے بعد وہ بہت سارے وسائل جو ترکیہ معاہد ہ کی وجہ سے استعمال نہ کر نے کا پابند ہے یہ بھی پابندی ختم ہوجائے گی جس میں ایک پابندی یہ بھی تھی کہ ترکی تیل کی تلا ش کے لیے نئے کنوئیں نہیںکھودے گا موجو د کنوئیں کا تیل بر آمد نہیں کر رہے گا اپنی آبی گذر گا ہ سے کوئی محصول وصول نہیں کر ئے گا وغیر ہ کئی پابندیو ں سے ترکیہ آزاد ہو جائے گا ، حقیقت یہ ہے کہ مغرب ترکیہ پر عائد پابندیو ںکے خاتمے سے خوف زدہ ہے ویسے بھی ترکی کے عوام کے جذبات سے مغرب سہما ہوا ہے اس کو سب سے بڑا خوف یہ کھائے جارہا ہے کہ کہیں پابندیو ں کے خاتمے سے اردغان ترکیہ میں خلا فت قائم کرنے کا اعلا ن نہ کر د ے جس کا انھو ں نے اپنے لے پالک مصطفی کمال اتاترک کے ذریعے ختم کر ایا تھا ، چنا نچہ اسی کا وش میں ترکیہ کو یو رپی یو نین کا ممبر نہیں بننے نہیں دیا گیا ، حالا نکہ ترکیہ کا ایک بڑ احصہ یو رپ میں واقع ہے اور اس نے یو رپی یو نین کی رکنیت کی تما شرائط بھی پور ی کی لیکن ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی شوشا نکال لیا گیا جس پر اردغان کو کہنا پڑا کہ اگر ترکیہ کو یو رپی یو نین کا رکن نہیں بنا چاہتے تو ترکیہ بھی اب رکن بننے کی خواہش نہیں رکھتا جیساکہ پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو کہنا پڑا کہ اگر آئی ایم ایف قرضہ کی قسط جاری نہیں کرتا نہ کرئے پاکستان نے بھی اپنا بند وبست کر لیا ہے۔ پاکستان کو قرضے کی قسط جاری کر نے کے لیے ایک سال سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے اعلا ن ہو تا ہے دو چار روز میں معاہد ے پردستخط ہو جائیں گے لیکن کوئی نہ کوئی بہا نہ ٹھوک دیا جا تا ہے اس طرح پورا ایک سال گذار دیا ، پاکستان کو اقتصادی بحران میں پھنسائے رکھنے کی کا وش پورے منصوبے کے تحت کی جارہی ہے ایک طرف مذاکرات میں پھنسا رکھا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی سیا ست میں پر اسرار انداز میں دخیل بھی ہے اس دخل اندازی کا پو ل اس وقت کھلا جب آدھی رات کو ٹھٹھرتی سردی امریکی سفیر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما فواد چودھری کے دولت کدہ حاضری کے لیے گئے یہ بات غور طلب ہے کہ رات کی ظلمت میں ایسی ملا قاتیں اسی وقت ہو تی ہیں جب کوئی جال بچھایا جا رہا ہو یا کوئی افتا د پڑ جائے امریکی سفیر کو کیا افتاد پڑی تھی کہ انھوں نے اتنی رات گئے پاکستان کے سیاسی رہنما کو جگایا ، وہ شاید رات کی یہ ملا قات ملفوف رہ جا تی لیکن امریکی سفیر کی ایسے وقت آمد کی کہا نی یقنی طور پر اہم ہو تی ہے چنا نچہ بیگم فواد چودھری نے رات کا منظر اپنے کیمرے کی آنکھ سے روشن کر دیا ، چنا نچہ یہ اس امر کی گواہی ہے کہ آنے والے دنو ں میں اس خطے میں کیا تبدیلیاں آنے والی ہیں پاکستان کے قدم روس چین کے بلا ک کی طر ف اٹھ رہے ہیں ایر ان اور سعودی عرب نے اپنے صدیو ں پر انے اختلا ف دھوڈالے ہیں چنا نچہ محولہ بالا حالات وواقعات پر یہ ہی کہاجا سکتا ہے کہ
ہر کہ مجحوب است محبوب است ۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا