چاندی ملی تو ذہن کا سونا پگھل گیا

27مئی کو شائع ہونے والے کالم کو ہم نے حسب معمول سوشل میڈیا کے مختلف ا کائونٹس یعنی فیس بک’ ٹویٹر اور بعض گروپ اکائونٹس پرڈالا تو اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی کئی فرمائشیں آنا شروع ہوئیں ‘ اگرچہ محولہ کالم بھی ہم نے ایک کرم فرما کی فرمائش پر ہی تحریر کیا تھا ‘ بہرحال نیم فکاہیہ انداز میں شعبہ کتابت کے بعض واقعات کو سامنے لانے کی بعض دوستوں اور بہی خواہوں نے جس طرح پذیرائی کی اور سلسلے کو آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا اسی کے پیش نظر چند مزید واقعات اور شخصیات کا تذکرہ آج کے کالم کا حصہ بنانے کی کوشش کرنا مقصود ہے ۔ گزشتہ کالم میں ہم نے آزادی اخبار کے مدیر مرزا چغتائی اور کاتب آغہ جان کا تذکرہ کرتے ہوئے پشاور صدر سے شائع ہونے والے ایک اخبار کا بھی تذکرہ کیاتھا جس کے کاتبوں نے محولہ اخبار کے مالکوں کی جانب سے دو تین ماہ تک تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر اخبار میں اشتہار کا جو حال کیا تھا اس کا ذکر ہوچکا ہے ‘ کچھ ایسی ہی صورتحال نے ایک بار آغہ جان اور اخبار آزادی کے مالک مرزا صاحب کے درمیان بھی جنم لیا ‘ متعلقہ سرکاری اشتہارات کے معاوضے کا چیک لیٹ ہو گیا تو مرزا صاحب نے بھی آغہ جان کو ادائیگی میں تاخیر کر دی ‘ آغہ جان کے بار بار تقاضے کے باوجود تنخواہ نہیں ملی تو انہوں نے اسی اخبار میں ایک چوکھٹے میں ایک گالی درج کرتے ہوئے لکھ دیا کہ ”مرزا چغتائی بڑا۔۔۔۔ ہے’ تنخواہ نہیں دیتا ”۔ ہم پہلے ہی گزارش کر چکے ہیں کہ مرزا صاحب ایڈیٹر سے ہاکر تک کے تمام عہدے اپنے پاس رکھتے تھے ‘ جب یہ گالی والا اخبار شائع ہوا اور مرزا صاحب حسب معمول پریس سے اخبار اٹھا کر چکہ گلی ‘ کریم پورہ ‘ گھنٹہ گھر ‘ چوک یادگار ‘ پیپل منڈی ‘ بازار بزازں ‘ بازار مسگراں ‘ قصہ خوانی سے ہوتا ہوا کابلی گیٹ (تب خیبر بازار اتنا آباد نہ تھا) پہنچا اور دکانوں پر اخبار کی کاپی ڈالتا گیا ‘ تو کسی نے وہ اشتہار پڑھ لیا اور واپسی پر ایک ایک آنہ اخبار کی قیمت وصول کرتے ہوئے مرزا صاحب کی توجہ اس اشتہار کی طرف دلائی تو مرزا صاحب نے خاموشی کے ساتھ جا کر جن سے ایک ایک آنہ وصول کیا تھا وہ واپس کرکے ا خبار کی کاپی واپس لے کر تمام بازاروں سے بھی اخبار اٹھا لیا اور اگلے روز کہیں سے قرض لے کر آغہ جان کو ادائیگی کر دی مگر اسے ملازمت سے پھر بھی فارغ نہیں کیا ۔ یہ سوچ کرکہ
محشر میں وہی رات پڑے گی تجھے بھاری
جو شب ترے ہمسائے نے فاقے میں گزاری
مرزا صاحب کا ایک اور قصہ بہت ہی مشہور ہے ‘ ایوبی آمریت کا دور تھا ‘ اس نے ملک میں بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا اور اس کے تحت بلدیاتی نمائندوں کے پہلے انتخابات کاانعقاد کرایا جس کے تحت پورے ملک سے 80 ہزار نمائندے چننے تھے جو آگے چل کر صدارتی نظام اور قومی و دو صوبائی اسمبلیوں کے لئے بطور الیکٹورل کالج بھی کردار ادا کرنے میں استعمال ہونا تھے ‘ کریم پورہ وارڈ سے مرزا صاحب بھی امیدوار بن کر میدان میں اترے ‘ علاقے کے لوگ مرزا صاحب کو یقین دلا رہے تھے کہ وہ انہیں ہی ووٹ دیں گے ووٹنگ (جو تین دن تک جاری رہنی تھی) کے روز ان کے کیمپ میں جو ہشتنگری میں گورنمنٹ ہائی سکول نمبر دو کے سامنے (تمام امیدواروں نے تمبو لگا کر قائم کئے تھے) علاقے کے لوگ آتے ‘ قہوہ نوش جان کرتے اور ووٹ نمبر کی پرچی لے کر سامنے سکول میں جا کر پولنگ بوتھ میں اپنی مرضی کے امیدوار کے بیلٹ باکس میں ووٹ ڈال کر چلے جاتے ‘ کچھ تو ان کے ساتھ یہ ہوا اور کچھ جھرلو سسٹم کا شکار ہوکر مرزا صاحب کے ساتھ مزید زیادتی یہ ہوئی کہ جھرلو پھیرنے والوں نے مرزا صاحب کے بیلٹ باکس ہی ملی بھگت سے خالی کردیئے ‘ شام کو جب ڈبے کھولے گئے تو وہ بالکل خالی تھے ‘ اب تو مرزاصاحب کی حالت دیدنی تھی ‘ چیخ چیخ کر آسمان سر پراٹھا لیا اور شور مچاتے ہوئے کہنے لگے ‘ ‘ظالمو دوسروں کوتوچھوڑیں خود میرا ‘ میری بیوی ‘ تین بیٹوں ‘ دو بیٹوں اور دو بہوئوں کے ووٹ کدھر گئے ؟ یہ ہمارے ہاں رائج جمہوری نظام پرگہرا طنزبھی ہے کہ ہم من حیث القوم آج تک صحیح ‘ غیرجانبداراور منصفانہ انتخابات کرانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکتے ‘ اب تو نوبت آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے یا بٹھائے جانے تک آچکی ہے ۔اللہ ہم پر رحم کرے۔
مفلس رہا تو سارے زمانے پہ راج تھا
چاندنی ملی تو ذہن کا سونا پگھل گیا
محولہ بالا شعرہمارے ایک دیرینہ کرم فرما اور بہت ہی باکمال شاعر دوست مرحوم قاسم حسرت کا ہے ‘ جو پریس میں بطور سنگ ساز خدمات انجام دیتے ھے’ سنگ ساز اخباری صنعت کا وہ کردار ہوا کرتاتھا جو اخبارات کے کتابت شدہ مسطر کو پراسیس کئے جانے کے دوران پلیٹ پر کہیں کہیں چربہ آنے سے تحریر متاثر ہو جاتی تو اس کی تصحیح کرنے کی ذمہ داری سنگ سازوں کی ہوتی ‘ یہ بہت ہی مشکل کام ہوا کرتاتھا کیونکہ پلیٹ میکنگ کے دوران جوتحریر کتابت والے مسطر سے پلیٹ پر اتاری جاتی وہ الٹ ہوتی تاکہ پریس میں چھپائی کے دوران یہ کاغذ پر پھر سیدھی ہوکر قاری کے ہاتھوں میں پہنچے ‘ اب پلیٹ پرالٹی تحریر جہاں جہاں سے اڑ جائے اسے الٹے طور پر ہی لکھنا کوئی خالہ جی کا گھرنہیں تھا ‘ اور باکمال تجربہ کار لوگ ہی یہ کام کرسکتے تھے ‘ وہ بھی اتنی خوبصورتی سے الٹی لکھائی (خوش خطی) کرتے ہوئے کتابت کی خوبصورتی بھی متاثر نہ ہو ‘ قاسم حسرت مرحوم پریس میں یہی کام کرتے ‘ کم پڑھے لکھے تھے ‘ قدرت نے انہیں ذہن رسا عطا فرمایا تھا ‘ اعلیٰ پائے کے شاعر تھے ‘ مشاعروں میں نہ صرف عمدہ کلام بلکہ اپنی خوبصورت آواز سے سماں باندھ دیتے ‘ بعد میں محلہ جنگی میں پہلے بلاک میکنگ اورپھر پرنٹنگ سے متعلق دیگر سرگرمیوں پر مبنی اپنا چھوٹا سا کاروبارشروع کردیاتھا جبکہ ایک مقامی اخبار میں حالات حاضرہ پر قطعات لکھا کرتے ۔ اسی طرح کتابت سے وابستہ ایک اور شاعر بھی تھے ‘ نام تھا ان کا قمر عثمان آبادی ‘ طویل القامت اتنے کہ یارلوگ از راہ تفنن انہیں قمر اونٹ آبادی کے نام سے پکارتے ‘ تھوڑے بہت پڑھے لکھے تھے ‘ خوشخط بھی بہت تھے ‘ مقامی ا خبارات سے بطور کاتب وابستہ رہے اردو مادری زبان تھی شعر و شاعری کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور اکثر مشاعرے منعقد کرتے ‘ ان کے ساتھ اخبار ہی میں ایک اور شاعر بھی ہوتے تھے جو اخبار میں پروف ریڈنگ کے شعبے سے وابستہ تھے ‘ نام تھا ان کا ”صحرائی سانھبری” موصوف شاعری کے حوالے سے تھوڑے سے ”بے تجربے” تھے یعنی جو قطعات وہ اخبار کے لئے لکھتے تھے ان میں کوئی نہ کوئی مصرعہ وزن پرپورا نہیں اترتا تھا ‘ اس حوالے سے راقم کو ذاتی تجربہ ہے کیونکہ ان کے بے وزن مصرعوں کو بحر کے مطابق درست کرنے پر بطور نیوز ایڈیٹر میں نظرثانی کرکے انہیں وزن میں لے آتا ۔ بہرحال بات ہو رہی تھی قمر عثمان آبادی کی ‘ جن پر ادبی حلقوں میں یہ الزام لگایا جاتا کہ موصوف خوداپنے ہی اشعار کا چربہ کرتے ہیں یعنی ایک غزل کہہ ڈالی اور پھر اگلی غزل میں اسی غزل کے مختلف اشعار کے مضامین دوسرے الفاظ میں شعروں کی صورت میں یعنی نئی بحر ‘ قافیہ ردیف کے ساتھ شامل کرکے مشاعروں میں سناتے رہتے ۔ ان کے یہ اشعار ان کے حسب حال دکھائی دیتے ہیں۔
سہتے سہتے ستم زمانے کے
پیکر یاس ہو گئے ہیں ہم
پھول مارو تو چوٹ لگتی ہے
اتنے حساس ہو گئے ہیں ہم

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی