چلئے چھپا کے غم بھی زرو مال کی طرح

خلیفہ اول اور خلیفہ دوم کا کیا ذکر کرنا کہ یہ ذکر تو تاریخ کے سنہرے اوراق میں ہمیشہ روشن تذکروں میں شامل رہے گا’ بات صرف اتنی تھی کہ بطور خلیفہ اول مسلمانان مدینہ کی جانب سے بیعت حاصل کئے جانے کے اگلے روز اپنی دکان پر حصول رزق کے لئے جانے لگے تو راستے میں (بعد میںخلیفہ دوم)حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے سے آتے دکھائی دیئے اور پوچھا ہے اے خلیفةالمسلمین کہاں کا ارادہ ہے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وجہ بتائی تب حضرت عمر نے منع فرمایا کہ اگر آپ بحیثیت خلیفہ دکانداری کریں گے تو دوسرے دکانداروں کا کاروبار مندے کا شکار ہو جائے گا ‘ قصہ مختصرکاروبار تج دینے اور ریاست مدینہ کے امور کی انجام دہی کے لئے بیت المال سے روزینہ مقرر کرنے پر ایک دیہاڑی دار مزدور کے برابر خرچہ وصول کرنے کی خواہش کی مگر رقم اتنی کم تھی کہ خلیفہ کا گزر بسراس سے نہیں ہوسکتا تو فرمایا ، میں مزدور کا مختانہ اتنا بڑھا دوں گا کہ اس کی گزر اوقات آسانی سے ہو سکے، اتنا ہی اپنا مقرر کیا ، یہ وہ وقت نہ تھا جب بلوم برگ جیسے ادارے موجود تھے جو ریاست مدینہ کے ڈیفالٹ کی پیشگوئی کرتے ، نہ ہی آئی ایم ایف کا کوئی وجود تھا جو ریاست مدینہ کو کڑی شرائط پر سودی قرضے فراہم کرکے اس کا اقتصادی گھیرائو کرتا ، کیونکہ سود کی حرمت کا حکم نافذ ہو چکا تھا اور سود کو اللہ کے ساتھ جنگ قرار دے کر اس سے دور رہنے کی واضح ہدایات آچکی تھیں ‘اوپر سے زکواة کا حکم آچکا تھا اور جب کچھ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد زکواة دینے میںنرمی کا تقاضا کیا تو حضرت عمر تلوار سونت کر فرمانے لگے اللہ کی قسم جس نے گزشتہ برس بکری کے گلے میں ڈالی جانے والی رسی جتنی بھی زکواة ادا کی تھی اس جتنی زکواة بھی معاف نہیں کی جائے گی پھر وہ وقت بھی آگیا جب لوگ زکواة لے کر مستحقین کو ڈھونڈتے تھے اور وہ نہیں نظر نہیں آتے تھے تب زکواة کو بیت المال میں جمع کرنے کا حکم دیا گیا۔ ایسی صورت میں بیت المال( موجودہ صورتحال میں قومی خزانہ ) میں دولت کے انبار اکٹھے ہو نے شروع ہو گئے تھے، اس وقت موسیٰ علیہ السلام کے دور کی طرح کوئی قارون بھی پیدا نہیں ہو سکا تھا جس نے زکواة دینے سے انکار کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ کے غیض وغضب کو آواز دی ہو اور اللہ نے اسے اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا کر نشان عبرت بنا دیا ہو۔اس حوالے سے مرحوم دوست سجاد بابر کے اس شعر کو تاریخ کے اس سنہرے دور پر آسانی سے منطبق کیا جا سکتا ہے کہ
کرن بھی اترے تو آہٹ سنائی دیتی ہے
میں کیا کروں مجھے خوشبو دکھائی دیتی ہے
محولہ واقعات کو مختصراً دو ہرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ قومی خزانے (بیت المال)پر شاہ خرچیوںکا کوئی بوجھ نہیں ڈالا جاتا تھا ‘ یہاں تک کہ بعد میں آنے والا یہ واقعہ بھی اسلامی تاریخ کا روشن باب ہے کہ خلیفہ وقت سرکاری حساب کتاب میں جب تک مصروف تھا چراغ روشن رہا، جیسے ہی کام اختتام پذیر ہوا تو دیا بجھا کر دوست کے ساتھ گپ شپ اندھیرے ہی میں جاری رکھی گئی۔ دوست نے دریافت کیا’ حضرت یہ کیا ؟ اچانک دیا کیوں بجھا دیا’ جواب ملا ‘اب تک بیت المال کا کام ہو رہا تھاچراغ میں تیل بیت المال کا خرچ ہو رہا تھا، جواز موجودتھا، مگر اب آپ اور میں ذاتی گفتگو کر رہے ہیں بیت المال کے خرچ سے چراغ روشن رکھنے کا کوئی جواز نہیں’ قیامت کے روز اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟ یہ گویا وہ فکری روشنی تھی جسے آنے والے زمانوں کے لئے اخلاقی جواز کے طور پر پھیلایا گیا۔ یعنی خود ہمارے ہی بقول
کہیں تو روشنی کے مرحلے ہوں
دیئے رستے ہیں اس نے رکھ دیئے ہوں
اب دو بھائیوں کا موازنہ کر لیتے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے’ میاں نواز شریف کی حکومت تھی قومی اسمبلی میں ایک پرائیویٹ بل پیش کر دیا گیا’ جس کے تحت ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں قابل رشک اضافہ مطلوب تھا’ ایک دوسرے سے ہر معاملے پر دست و گریباں اراکین اسمبلی نے تمام تر اختلاقات بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف پانچ ( یہ ریکارڈ کا حصہ یعنی واقعی صرف پانچ منٹ) میں ان مراعات کو متفقہ طور پر” شیر و شکر” ہوکر سند قبولیت بخشی، میاں صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے اپنی پارٹی کے پارلیمانی لیڈرز کی سخت سرزنش کرتے ہوئے بل واپس لینے کی ہدایت کی کیونکہ اس پر عوام میں بھی شدید ردعمل آیا اور ہر طبقہ فکر نے بیانات کے ذریعے شدیداحتجاج کیا۔ اس کے بعد یہ بل واپس لیا گیا’ اب چھوٹے بھائی کا دور ہے اور ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے اب کی بار سینیٹ کے چیئرمین کے لئے جو ” پر تعیش” مراعات اور تنخواہ کے علاوہ مدت پوری کرنے کے بعد سر گاری خرچ پر ملازمین سیکورٹی مراعات یہاں تک کے سفر کے لئے چارٹرڈ ہوائی جہاز تک جیسی مراعات اور دیگر سہولیات (پورے خاندان کے لئے) سینیٹ کے گزشتہ روز کے اجلاس میں (سابقہ تجربے کو دوہراتے ہوئے)ایک بار پھر متفقہ طور پر منظور کرکے بلوم برگ کی پیشگوئی کا مذاق اڑایا گیا ہے اور آئی ایم ایف کی ”خواہشات” کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد دی گئی ہے۔اس ضمن میں یہ بل جن محترم سیاسی رہنمائوں نے پیش کیا ‘ ماضی میں ان کے جمہوریت اور آئین کی پاسداری کے حوالے سے کردارکوقابل فخر قرار دیا جاتا رہا ہے ‘ انہوں نے ہمیشہ عوام کے بہبود کی بات کی ‘ یعنی دو سابقہ چیئرمین سینٹ رضا ربانی اور فاروق نائیک نے بل پیش کیا ‘ اس بل کی تفصیلات میڈیاپر سامنے آچکی ہیں جن کی پوری تفصیل پڑھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے اور غالب کے بقول کہنا پڑتا ہے کہ
خانہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھئے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہئے
تاہم اس سوال ”کیا کہئے” کو دونوں سابق چیئرمین صاحبان نے واضح بھی کردیا ہے کیونکہ اس بل کا اطلاق موثر بہ ماضی کرکے انہوں نے اصل مقاصد واضح کر دیئے ہیں یعنی یہ مراعات نہ صرف موجودہ چیئرمین سینیٹ کو ملیں گے ‘ مستقبل میں آنے والوں پر اس کا اطلاق ہو گا ‘ بلکہ ماضی کے چیئرمینوں کو بھی اس بل کے ثمرات بٹورنے کاحق حاصل ہو گا ‘ یعنی
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف ‘ بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن ‘ کچھ تو ادھر بھی
ایک ڈیفالٹ ہونے والے ملک کے خالی خزانے پر اس قدر بوجھ ڈالنے والوں کو یہ بھی احساس نہیں ہو رہا ہے کہ بے روزگاری او غربت کی دلدل میں دھنسنے والے ملک کے خالی خزانے پر مبینہ طور پر ”ڈاکہ” ڈالنے سے بے بس اور غریب عوام کی چمڑی ادھیڑ کر ٹیکس وصول کرنے کی یہ ”لوٹ کھسوٹ” کیسے جائز قرار دی جا سکتی ہے اور چھوٹے میاں ‘ بڑے میاں کے ماضی کے اقدام کے برعکس یہ کیسے برداشت کر رہے ہیں؟ بقول شکیب جلالی
ہر موڑ پر ملیں گے کئی راہزن شکیب
چلتے چھپا کے غم بھی زر ومال کی طرح

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟