چلتے چھپا کے غم بھی زر و مال کی طرح

کیا ہم دوسری جنگ عظیم کے بعد کساد بازاری کے اس دور میں پہنچ گئے ہیں جب لوگ بوریوں میں کرنسی نوٹ بھر بھر کر بازار لے جاتے اور بمشکل ہی ایک کلو گوشت ‘ یا سبزی حاصل کر پاتے یعنی کاغذ پرچھپنے والی کرنسی کی کوئی وقعت ہی نہیں رہ گئی تھی ایسی ہی کیفیت انقلاب روس کے بعد سابق سوویت یونین یا بہ الفاظ دیگر زار روس کے خلاف کمیونسٹ انقلاب کی کامیابی کے بعد پیدا ہو گئی تھی’ جب لینن کی قیادت میں زار روس کا تختہ الٹنے کے بعد روسی کرنسی کو منسوخ کرکے کمیونسٹوں نے اپنی کرنسی رائج کر دی تھی ‘ تب زار کے دور کے کرنسی نوٹ ردی کے بھائو بھی کوئی لینے کو تیار نہیں تھا ‘ یہاں تک کہ پشاور کے بہت سے مشہور تجارتی خاندانوں خصوصاً سیٹھی خاندان کے ایک بزرگ کا ‘ جن کے تجارتی قافلے وسط ایشیائی ریاستوں ثمر قند ‘ بخارا ‘ تاجکستان ‘ کرغیزستان ‘ آذر بائیجان وغیرہ وغیرہ تک آتے جاتے اور وسیع پیمانے پر تجارت کرتے ‘ محولہ بزرگ تاجر کے پاس پشاور میں روسی کرنسی روبل کی اس قدر بہتات تھی کہ مبینہ طور پر کئی ایک سرائوں میں کمرے ان روسی نوٹوں کی بوریوں سے اٹے ہوئے تھے ‘ مگر جیسے ہی کمیونسٹ انقلاب کے بعد لینن انتظامیہ نے روسی کرنسی Demonetise کر دی ان کا دیوالیہ نکل گیا۔ واقفان حال اس حوالے سے موصوف کے اسی سال ہندوستان(تب برصغیر تقسیم نہیں ہوا تھا یعنی پاکستان وجودمیں نہیں آیا تھا) سے جدہ تک حاجیوں کو لانے لے جانے کے لئے ٹھیکہ حاصل کیا تھا اور ٹکٹ مہنگا کر دیا تھا ‘ جس پر غریب حجاج کرام سخت ناراض تھے ‘ مزید تفصیل لکھنے کی ہم میں ہمت نہیں ہے ‘ بہرحال بات کرنسیوں کی بے قدری کی ہو رہی ہے اس لئے خود کو اسی تک محدود رکھتے ہیں ‘ اور واپس دوسری جنگ عظیم کے دور کی کساد بازاری پر روشنی ڈالتے ہیں اس کساد بازاری کے اثرات کئی ملکوں میں بعد کے کئی برسوں تک مرتب ہوتے رہے ‘ بوری میں کرنسی بھر کر ایک کلو گوشت یا سبزی حاصل کرنے کی داستان تو اس دور کے انڈونیشیا کے حوالے سے کہی جاتی ہے جبکہ دیگر کئی ممالک میں بھی کرنسی اس قدر ڈی ویلیو ہوگئی ہے کہ مشہور طنز و مزاح نگار کرنل شفیق الرحمان (بعد میں میجر جنرل ہوگئے تھے) نے بھی اپنی ایک تصنیف مزید حماقتیں میں شامل ایک سفر نامہ برساتی میں چند مغربی ممالک کی سیر کے دوران(غالباً) سپین کے سفر کے دوران اچانک ”لکھ پتی” بننے کی روداد لکھتے ہوئے جن الفاظ سے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ‘ وہ کمال ہے چونکہ سپین کی کرنسی کان نام”لیرا” ہے اس لئے وہ لکھتے ہیں کہ جیسے ہی میں وہاں کی سرحد میں داخل ہوا اور ڈالر کو مقامی کرنسی میں تبدیل کیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اچانک ہی میں زندگی میں پہلی بار لکھ پتی بن گیا کیونکہ کرنسی تبدیل کرنے والے نے مجھے چند ڈالر کے بدلے میں اتنے ڈھیر سارے مقامی کرنسی کے نوٹ تھما دیئے کہ جنہیں سنبھالنا میرے لئے مشکل ہو رہاتھا ‘ گویا مقامی کرنسی ڈیلر نے میرے چند ڈالروں کے”لیرے لیرے” کر دیئے تھے یوں انہوں نے مقامی کرنسی”لیرا” کو اردو زبان کے لیرے لیرے بنا کر حسن بیان کی حد کر دی ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال چند برس پہلے جب افغانستان میں انقلاب درانقلاب (جہاد سے مبینہ فساد) کے بعد وہاں کی کرنسی کی بے توقیری کا سلسلہ شروع ہوا تو پاکستان کے ایک روپے کے مقابلے میں افغانی کی جو قیمت تھی اور ہمارے ایک روپے کے عوض بھی تقریباً وہی صورتحال بنی یعنی بوریاں بھر کر افغانی نوٹ لائے جاتے اور چند سو پاکستانی بدلے میں حاصل کئے جاتے ‘ مگر اب دنیا بہت بدل گئی ہے اور دراصل آج کے کالم کی بنیاد ہی وہی بدلتی ہوئی صورتحال ہے ‘جس پر کالم کے آغاز میں ہم نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہم دوسری جنگ عظیم کے بعد کی کساد بازاری والے دور میں پہنچ چکے ہیں ؟ اور یہ سوال ہم نے یوں ہی نہیں اٹھایا بلکہ اس کے پیچھے وہ خبر ہے جس میں یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ اب اغواء کاروں نے بھی تاوان میں روپے کے بجائے ڈالر مانگنا شروع کر دیئے ہیں یعنی ہمارا روپیہ اس قدر بے وقعت ‘ بے توقیر ‘ سستا بلکہ ناقابل اعتماد ہوچکا ہے کہ ”چور اچکے ڈاکو اور غواء کار بھی” اسے کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہو رہے ہیں ‘ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کسی مغوی کی رہائی کے حوالے سے ”سودا بازی” کرتے ہوئے فائنل معاہدے تک پہنچتے پہنچتے روپے کی قدر ڈالر کی اونچی اڑان کی وجہ سے مزید کم ہوسکتی ہے جس کا انہیں ”نقصان” ہو سکتا ہے ‘ تاہم اگر وہ ڈالر میں تاوان(تاوان ؟ کس بات کا تاوان؟) وصول کریں گے تو انہیں کچھ فرق پڑنے کا نہیں ‘ بے شک روپے مزید نیچے پاتال کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ‘ ان کی بلاسے ۔ گویا بقول شاعر
میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
میری بلا سے بوم رہے یا ہمارہے
ہماری کرنسی کی جو”درگت” گزشتہ کچھ سالوں سے بن رہی ہے اور زیادہ دور کی بات نہیں یہی تقریباً نوے(90) کی دہائی کے اواخر کی بات ہے(ایوبی دور کا ذکر جانے دیں جب ایک ڈالر ڈھائی روپے کا آتا تھا) یعنی 1994ء میں ہمیں ریڈیو پاکستان کی جانب سے ریڈیو ڈرامے کی اعلیٰ تربیت کے لئے جرمنی جانا پڑ گیا تھا اور وہاں ہمارے ساتھ بھارت ‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے لوگ بھی تربیت کے لئے آئے تھے ‘ تو وہاں ہماری محولہ تینوں ممالک کے مقابلے میں ہماری کرنسی زیادہ ”وزنی” تھی یعنی ہمیں ایک ڈوئچے مارک کے مقابلے میں بیس روپے ‘ بھارت والوں کو تقریباً 24 روپے ‘ سرلنکا کے 25اور بنگلہ دیش والوں کو 30ٹکہ(وہاں کی کرنسی کو اب ٹکہ بولتے ہیں) کے حساب سے مارک کا حساب کرنا پڑتا تھا ‘ گویا پاکستان کا روپیہ محولہ تمام ممالک سے زیادہ قیمتی تھا ‘ مگر اب صورتحال یہ ہے کہ ایک بھارتی روپے کے مقابلے میں ہمیں تین ساڑھے تین روپے ادا کرنے پڑتے ہیں ‘ بنگلہ دیش کے مقابلے میں بھی ہماری کرنسی کم قیمت ہو چکی ہے ‘ وجوہات کیا ہیں؟ یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں ‘ یہاں تک کہ اب تو افغان کرنسی بھی ہمارے مقابلے میں خاصی”مقوی” ہوچکی ہے اور ہمارا روپیہ مسلسل اپنی قدر کھو رہا ہے ‘ اس صورتحال میں اب چور اچکے بھی اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ‘ اس صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان خصوصاً تنخواہ دار طبقے اور اس سے بھی زیادہ پنشنرز کو ہو رہا ہے ‘ اگرچہ ان ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں ہر سال آٹے میں نمک سے بھی کہیں کم اضافہ ضرور کردیا جاتا ہے مگر ویلیو یعنی قدر کے لحاظ سے ایک ملازم یا پنشنر آج سے چند برس پہلے جتنی تنخواہ یا پنشن وصول کرتا تھا ‘ قدر کے حوالے سے ہندسہ تبدیل ہوجانے کے باوجود ”قوت” کے حوالے سے اب اس میں پہلی والی جان نہیں رہی ‘ کیونکہ مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہند سے میں اضافے کے بعد جو رقم ملتی ہے اس سے چند برس قبل ملنے والی اشیاء اتنی مقدار میں نہیں ملتیں اور یہ سلسلہ آگے ہی بڑھ رہا ہے یعنی وصول ہونے والی ماہانہ آمدن دن بہ دن کمزور ہوتی جارہی ہے ۔ تو پھر اغواء کاروں سے کیا گلہ کیا جائے؟ یعنی بقول شکیب جلالی
تیز آندھیوں میں اڑتے پر وبال کی طرح
ہرشے گزشتنی ہے مہ و سال کی طرح
کیا کچھ کیا نہ خود کو چھپانے کے واسطے
عریانیوں کو اوڑھ لیا ‘ شال کی طرح
ہر موڑ پرملیں گے کئی راہزن شکیب
چلتے چھپا کے غم بھی زر و مال کی طرح

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے