چور کے من بسے ککڑی کا کھیت

کیا اس بار بھی افغانستان تنہا رہ جائے گا جیسا کہ طالبان کے گزشتہ دور میں ہوا تھا ، لگ تو ایسا نہیں رہا ہے ، گو ہنوز پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے باقاعدہ طورپر افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز ہی کیا ہے اس کے باوجود طالبان کے کندھوں پر ہا تھ رکھنے والوں کی کمی نہیں دیکھنے کو ملی ہے ، عملاً دنیاوی دو سپر پا ور چین اور روس اس کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہیں یہ ہی طالبان حکومت کے لیے باعث اطمینان ہے جب کہ عملی طور پر قطر بھی آگے آگے ہے ،امریکا فطرتاً دوغلی چال پر گامزن ہے ،کیو نکہ اس کا شیوہ یہ ہی رہا ہے کہ چیت بھی اپنی پٹ بھی اپنی ، اس سارے کھیل میں بھارت کہاںکھڑا ہے ، بظاہر وہ طالبان کے بخئیے ادھڑ میں مگن ہے حقیقت میں اس کی تما م پھرتیاں پاکستان کو تنہا کرنے کی مساعی میں ہیں لیکن ہر جگہ منہ کی کھانی پڑ رہی ہے ، بھارت ایسا افغانستان کا زبردستی کاماں جائی بنا ہوا ہے کہ اس کے شجرہ میں افغانستان سے سرحد ملتی ہے نہ ثقافتی ورثہ کاپایا جاتا ہے نہ زندگی کے کسی واسطے سے ڈاکخانے سے ڈاکخانہ ملتا ہے ، پھر بھی بھائی جائی ہے ، پاکستا ن اور افغانستان ایسے ہیں کہ ان دونو ں کی کسی معاملے میں دوئی نہیں پائی جاتی ،زبان ایک، دین ایک ،ثقافتی ورثہ ایک ، حتیٰ کے خون ونسل ایک پھر بھی یار لوگ پاکستان کو افغانستان کے معاملات سے کونے میں رکھنے کی بدعت میں مصروف ہیں اگر چہ یہ مصدقہ عمل ہے کہ قانون فطرت کو بدلا نہیں جا سکتا ، جب اقوام متحدہ کی قومی سلامتی کا اجلاس افغانستان کے سلسلہ میں منعقد کرایا گیا تو اس وقت بھی پا کستان کو کنارے سے لگایاگیا ، اسی طرح جی20ممالک کا جو اجلا س 24اکتوبر کو ہو نا تھا وہ دو ہفتے ہی قبل بلوا لیا گیا ، گو یا بہت بڑی ہنگامی صورت حال درپیش تھی کہ اتنی عجلت کا مظاہر ہ کیا گیا اس اجلا س میں بھارت کے وزیر اعظم بھی چمک دمک کے ساتھ براجما ن جلو ہ گر تھے حالانکہ جی20کے ممالک کا یہ اجلاس بھی افغانستان سے متعلق آئندہ کے لائحہ عمل کی غرض سے تھا ، اب ان ممالک سے استفسار کیا جائے کہ بھارت کا افغانستان کے ساتھ دور پار کا بھی کوئی رشتہ ناتا نہیں ہے پھر وہ کس حیثیت میں شریک محفل ہوئے یاکرائے گئے، جہا ں تک جی 20 تنظیم کا تعلق ہے تو یہ ان ممالک پر مشتمل ہے جو دنیا میں ترقی کی دوڑ میں بہت آگے ہیں کیا بھارت ان کے ہم پلّہ ہے ، جووہ صحبت آراء ہوئے، حیرت کی بات یہ کہ جن ممالک کا اجلاس تھا وہ خود کو دنیا کے مہذب ترین اقوام میںشمارکرتے ہیں بار بار اس کا اعادہ بھی کرتے رہتے ہیں ، بھلا ان سے پوچھئے کہ جس ملک کے بارے میں اس کی قدر و قیمت کا فیصلہ کرنے لگے ہو اس کو اجلاس میں شرکت کی دعوت نہ دینے کی کیا حجت تھی کیا یہ اجلا س کوئی عدالت ہے جو یکطرفہ فیصلہ دینے جا رہی تھی ، بھارت جس کا کوئی علا قہ افغان امور سے نہیں ہے ، پھر ایران اور پاکستان جو ایک سرحد ی لکیر پر ہیں ان کو بھی نظر انداز کیا گیا جس سے یہ ہی تاثر لیا جا سکتا ہے کہ اس اجلا س میںخلوص کا فقدان سرایت کئے ہوئے ہے اور بغض اچھل رہا ہے چنانچہ جب نیت صاف نہ ہو تو پھر ایسا ہی ہو تا ہے ایسے کامو ں کا یہ اجلا س اپنی مقدر بھری تمناؤں کے ساتھ ناکامی ہی سے دوچارہو کر رہ گیا ، دو بڑی عالمی طاقتو ںنے اجلا س کا منہ چڑا دیا ، روس نے ایسے اجلاس میںجانے سے انکا ر کردیا کہ جس کے متعلق اجلا س ہے جب اسی کو مدعو نہیں کیا تو وہ کیو ں کر اجلاس کا حصہ بنے ، چین نے تو سب ہا تھ کا پنجہ دکھایا وہ بھی بائیں ہا تھ کا ، یہ اجلا س ویڈیو لنک کے ذریعے تھا ، روس تو اس لنک میں شریک ہی نہیںہو ا البتہ چین نے جو ہاتھ دیکھا وہ بھارت کے منہ پر تھپڑ نہیں بلکہ لپاٹا ہے جو منہ پھیر کر رکھ دیتا ہے چین نے پہلے بیان دیا کہ یہ اجلا س افغانستان امور سے متعلق مدعو کیا گیا ہے مگر اس میں افغانستان کہا ں ہے ، پھر پا کستان ، ایر ان ، تاجکستان ، ترکی ، اور اسکی شمالی سرحد وں سے منسلک ممالک کہیں نظر آرہے ہیں ؟ جن ممالک کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہیں جب وہ ہی اجلا س میں نہیں بیٹھے ہوئے ہیں تو چین ایسے اجلاس میںکیوں شریک ہو کیونکہ ایک سرحد ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ گہر ا واسطہ ہوتا ہے، ایک دوسرے کے حالات بھی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں چین نے یہ اعتراض بھی کیا کہ ایک سرحد رکھنے والے تو غیر حاضر ہیں مگر بھارت براجمان ہے وہ کس رشتے سے شریک ہو رہا ہے جب کہ وہ افغانستان کا دور پار کا ناتا بھی نہیں رکھتا چنانچہ ایسے حالات میںچین شریک نہیں ہوگا ، چین کے بارے میں مغربی میڈیا نے یہ خبر دی کہ اس نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ چین نے واک آؤٹ نہیں کیا بلکہ اس نے بائیکاٹ کیا ، وہ جوکہا جا تا ہے کہ مغرب کے ہیں رنگ نرالے بلکہ مغرب کے تو ڈھنگ بھی ہیں نرالے ، جہا ں جی 20کے ممالک کا اجلاس ہوا وہاں یورپی یونین نے دوحا میں طالبان حکومت کے نمائندوں سے ملاقات کرکے افغانستان کے لیے غالباً ایک ارب یورو کی امداد کا اعلان کیا ، تاہم اس بارے میں انھوں نے فیصلہ یہ کیا کہ چونکہ ابھی یورپی یونین نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیںکیا ہے چنانچہ افغانستان کی مشکلا ت کو ختم کرنے اور بحالی کے پروگرام کے لیے طالبان حکومت کوبراہ راست امداد نہیں دی جائے گی بلکہ افغانستان میں کام کرنے والی این جی او ز کو رقوم فراہم کی جائے گی ، گویا افغانستان کوگھیرے میں لینے کی جو کاوشیں کی جا رہی ہیں یہ چال بھی اسی کا حصہ نظر آ رہی ہے ۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند