2 373

ڈائیلاگ کا گنڈاسہ

گنڈاسہ بانس کا وہ ڈنڈا ہوتا ہے جو پنجابی فلموں کے ہیرو سلطان راہی سے ہی منسوب ہو کر رہ گیا ہے۔ سلطان راہی مرحوم کا گنڈاسہ جب ہوا میں لہراتا تھا تو سلطان راہی کے سوا ہر ایک کا دل دہل کر رہ جاتا تھا کیونکہ سلطان راہی کو گنڈاسے کی حقیقت معلوم ہوتی تھی۔ پی ڈی ایم کے دو جواں سال قائدین ان دنوں اپنے لفظوں اور جملوں سے سلطان راہی کے گنڈاسے کا کام لے رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ فلاں تاریخ تک وزیراعظم مستعفی ہوجائیں اپنے اندر ایک تحکمانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فوج کو عمران خان کے پیچھے سے ہٹ جانے کا حکم بھی اس طرح دیا جاتا ہے کہ جس طرح اپنی کسی شوگر مل کے اکاؤنٹنٹ کو حساب کتاب کا رجسٹر لانے کو کہا جا رہا ہو۔ اوپر سے فخریہ طور پر یہ فرمانا کہ تم سے این آر او مانگ کون رہا ہے؟ تم تو این آر او دینے کے قابل ہی نہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ فوج سے این آر او مانگا جا رہا ہے۔ فوج سے براہ راست نہیں تو امریکہ کے سفارتخانے یا سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ذریعے یہ فرمائش ہو رہی ہے۔ اس طرح تو ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں میں یہی استعمال کرتے ہوئے گڑھی خدابخش میں بول چال کا یہی انداز جاری رہا۔ پچاسی کے بعد شروع ہونے والی سیاست کا وطیرہ رہا ہے کہ فوج سے ڈیل ہو جائے تو تمغۂ جمہوریت کی مستحق اور ڈیل نہ ہو تو سہولت کار اور سازشی۔ جب ڈیل نہ ہونے ڈیل نہ کرنے کے اعلانات ہو رہے ہیں پس پردہ ایک ڈیل ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ یہ وہی انداز ہے جو دوبئی میں جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے درمیان مذاکرات کے موقع پر پارٹی قیادت کی طرف سے اپنایا جاتا تھا۔ پارٹی کے اعتزاز احسن جیسے قائدین مشرف حکومت پر تابڑتوڑ حملے کر رہے تھے اور کسی قسم کے مذاکرات سے انکاری تھے تو ایسے میں جہانگیر بدر جیسے سادہ مزاج انسان اپنے روایتی دلچسپ انداز میں کہتے ہمارے کوئی مذاکرات نہیں چل رہے البتہ ڈائیلاگ ہورہا ہے ڈائیلاگ کسی بھی وقت کسی سے بھی ہو سکتے ہیں ۔ان ڈائیلاگ کا نتیجہ وہی نکلا کہ جو کامیاب مذاکرات کا برآمد ہوتا ہے ۔اس ڈائیلاگ کے نتیجے میں جنرل مشرف اور پیپلزپارٹی شراکت اقتدار کے فارمولے پر متفق ہوگئے ۔یہ الگ بات کہ بعد میں یہ منظر تبدیل ہو کر رہ گیا۔ ان دنوں جب بلاول اور مریم حکومت پر گرج برس رہے ہیں توجہانگیر بدر کی زبان میں کہیں نہ کہیں ڈیل اور مذاکرات نہ سہی ”ڈائیلاگ” کا عمل جاری ہے اور یہ ڈائیلاگ اس وقت نتیجہ خیز ہوں گے جب میاں نوازشریف اپنا بریف کیس تھامے ہیتھرو ائر پورٹ سے جدہ کی طرف چل دیں گے۔ چند دن قبل وزیراعظم کے قومی سلامتی سے متعلق مشیر معیدیوسف نے کہا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ایک ڈیڑھ ماہ تک اسی طرح اُتار چڑھاؤ کا شکار رہیں گے۔ کیا یہ وہی عرصہ ہے جس میں نوازشریف کو برطانیہ سے سعودی عرب منتقل کئے جانے کے معاہدوں کو حتمی شکل ملے گی۔ اس میں شریف خاندان اور ان کے ضامنوں کے ساتھ ساتھ عمران خان کے مؤقف کو سمونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور یہی اس وقت سیاسی اُبال کی اصل وجہ ہے ۔اس معاہدے پر دستخط ہوتے ہی درجہ حرارت گرتا چلا جائے گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی خرابی میں دو معاملات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔اس میں پہلا نکتہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے محمد بن سلمان کا دبائو تھا ۔محمد بن سلمان پاکستان پر دبائو ڈالتے ڈالتے خود دبائو میں آگئے اور شہزادہ ترکی الفیصل جیسے ،معتدل مزاج لوگ شاہ سلمان کی اشیر باد سے آگے آئے اور انہوں نے سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوششوں کو ناکام بنادیا اور پاکستان کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا۔ جس کے بعد اسرائیل کے وزیر برائے علاقائی تعاون اوفیرا کوئنس کے اس بیان نے مستقبل قریب کی حد تک اس معاملے کو ختم ہی کردیا کہ خلیج اور مشرق میں دو ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خواہش مند ہیں مگر مشرق کا ملک پاکستان ہے نہ خلیج کا ملک سعودی عرب ہے ۔اس طرح پاکستان کی مزاحمت نے سعودی عرب کو اسرائیل تسلیم کرنے کے دبائو سے آزاد کر دیا۔ محمد بن سلمان جس قدر عجلت میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کے سفر پر چل پڑے تھے یہ سفر اتنی ہی تیزی میں ترقی معکوس کا شکار ہوگیا۔ اس کے بعد سعودی عرب کے ساتھ دوسری وجہ نزع میاں نوازشریف کا معاملہ ہے تو اس میں واحد رکاوٹ عمران خان کی ضد ہے ۔وہی عمران خان جن سے اپوزیشن کوکوئی این آر او درکار نہیں،جنہیں وہ این آر او دینے کا اہل ہی نہیں سمجھتے اس وقت حالات کے رنگ میں بھنگ ڈالے ہوئے ہیں ۔ایک ڈیڑھ میں یہ اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھ گیا تو ڈائیلاگ کے گنڈاسے بھی ہوائوں میں لہرانا بھول جائیں گے ۔یہ الگ بات ماضی کے تجربہ کار لوگ ڈائیلاگ کی طرح ڈیل بھی ایسی ہی کریں گے کہ اس کا ثبوت کسی کے پاس نہیں ہوگا اور معاملات بگڑے تو کسی سعودی شہزادے کو پاکستان آکر جیب سے ایک کاغذ لہرانا پڑے گا جس میں اس ان کہی داستان کے راز پوشیدہ ہوں گے۔تب بھی کچھ لوگ مصر ہوں گے کہ کیسی ڈیل کونسی ڈیل؟۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام