ڈیٹا تحفظ کے قومی ادارے کے قیام کی ضرورت

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کا یہ انکشاف کہ ملک بھر میں جعلی سمز برآمد کی جارہی ہیں جبکہ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کا بائیومیٹرک ڈیٹا ہیک ہوچکا ہے۔نہایت قابل تشویش امر ہے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں جعلی سموں کی روم تھام سے متعلق بریفنگ میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ فیصل آباد میں ایک کارروائی کے دوران13ہزار جعلی سمز برآمد کی ہیں۔ایڈیشنل ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ مالی فراڈ کے کیسز آتے ہیں اور جب کسی کو پکڑتے ہیں تو کوئی بزرگ شخص یا خاتون ہوتی ہیں۔اس موقع پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)کے چیئرمین نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ پی ٹی اے نے کسی بھی موبائل فون کمپنی کو ڈور ٹو ڈور سم فروخت کرنے اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آنکھوں کا ڈیٹا بیس موجود نہیں ہے، غیر قانونی طریقے سے لوگوں کے انگوٹھے کے نشان لیے جاتے ہیں، اب انگوٹھے کے نشان والا معاملہ ختم کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ26ہزار غیر قانونی سمز کی صرف رواں سال اکتوبر میں نشاندہی کی گئی، غیر قانونی سمز کی فروخت روکنے کے لیے پی ٹی اے کی جانب سے اقدامات کئے گئے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی کنول شوزب نے بتایا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی اراکین کہ موبائل لوکیشن ٹریس کی گئی۔ مجھ سمیت دو ممبران کی لوکیشن سندھ کے علاقے ٹھٹھہ میں ٹریس ہوئی۔ اراکین یہاں موجود تھے لیکن لوکیشن ٹھٹھہ میں ظاہر ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک ممبر کی لوکیشن3جگہوں پر ظاہر ہورہی ہو تو یہ خوفناک بات ہے ایک اور مشکل امر یہ درپیش ہے کہ سیلی کون کے ذریعے سم کھلوائی جاتی ہیں کسی اور کے نام پر کھلنے والی سم بھتے اور اغوا کی وارداتوں میں بھی استعمال کی گئی ہیں ۔ٹیکنالوجی کا جس قدر منفی استعمال ہمارے ہاں ہو رہا ہے شاید ہی کہیں اور اتنی آسانی اور آزادی سے اس کا استعمال ہو رہا ہو ‘ نادرا جیسے حساس ادارے کا بائیو میٹرک ڈیٹا ہیک ہونے کا مشکوک انکشاف سنگین معاملہ ہے گوکہ نادرا ترجمان نے اس کی کلی طور پر تردید کی ہے لیکن ایک اعلیٰ فورم پر ایک ذمہ دار عہدیدار کے بیان کو محض غلط فہمی قرار دے کر عوام کو مطمئن نہیںکیا جا سکتا اگر واقعی غلط بیانی ہوئی ہے تو ان کے خلاف باقاعدہ شکایت اور کارروائی کی درخواست دی جائے اور ان کو عدالت طلب کیا جائے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نہایت سنگین معاملہ ہے کہ نادرا جس کے پاس شہریوں کا حساس ریکارڈ موجود ہے اس حوالے ایف آئی اے کے عہدیدار کی جانب سے دعویٰ یکسر بے بنیاد نہیں ہو سکتا اورنہ ہی یہ کوئی انوکھی بات ہے حال ہی میں ایف بی آر اور نیشنل بینک کا نظام بھی ہیک کیا گیا بینکوں میں آن لائن فراڈ کے بڑھتے واقعات میں بھی شہریوں کے ڈیٹاکے
درست حوالے اور تمام معلومات فراڈ عناصر کے پاس موجود ہونے کی بناء پر ہی شہری دھوکہ کھا جاتے ہیں اگرچہ اس قسم کے عناصر کہیں سے بھی معلومات حاصل کرکے شہریوں کولوٹ سکتے ہیں لیکن غیرمقامی اور انجان افراد تک شہریوں کا ڈیٹا اس آسانی سے دستیابی نادرا کے نظام ہی کے ذریعے ممکن نظر آتا ہے جس قسم کی صورتحال ایف آئی اے کی جانب سے بتائی گئی ہے یہ ایسا معاملہ نہیں کہ نادرا ترجمان کی تردید کو اس حوالے سے کافی سمجھا جائے یہ ایک نہایت ہی حساس معاملہ ہے جس کی تحقیقات اور روک تھام کے لئے اجتماعی ملکی ا داروں اور ماہرین کی ٹیم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاملات کا جائزہ لیکر اس کا کوئی حل تجویز کرے محولہ قسم کے حساس اداروں اور اس میں کام کرنے والے ایسے تمام کارکنوں جن کی ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوان کی نگرانی اور مشکوک عناصر سے پوچھ گچھ کی ضرورت ہے اس امر کا کھوج لگانا بے حد ضروری ہے کہ ڈیٹا کا انکشاف کیسے ہوا پی ٹی اے کی جانب سے ڈور ٹو ڈور سم فروخت کرنے کی اجازت نہ دیناکافی نہیں سڑکوں کے کنارے اور جگہ جگہ جس بے ہنگم اور اندھا دھند طور پر بغیر کسی شناخت کے افراد سم مفت میں دے رہے ہوتے ہیں اس کی روک تھام اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی ذمہ داری کیوں نہیں نبھائی جارہی ہے غیرقانونی سمزکی روک تھام کیلئے تصدیقی عمل شروع کرنے اور ہر شہری کوپابند بنانے کہ وہ اپنے نام پر اضافی سموں کی موجودگی کی نشاندہی کرے باقاعدہ مہم شروع کی جانی چاہئے اس حوالے سے شہریوں کی آگاہی کے لئے بھی معلوماتی پروگراموں کی ضرورت ہے سمز کے لئے بائیو میٹرک کے نظام کودھوکہ دینے اور اس کے غلط استعمال کو روکنے کا فول پروف نظام نہ ہونے کے بعد آنکھوں سے شناخت کے ذریعے سمز کی تصدیق اور نادرا میں بھی آنکھوں کی شناخت کا عمل شناختی دستاویز میں لاگو کرنے پرتوجہ دی جانی چاہئے لوکیشن کی معلومات کے حوالے سے غلط معلومات کی وجوہات اور اس کے تدارک پر بھی توجہ کی ضرورت ہے انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کی شرائط سخت اور ان کے نظام کاجائزہ لیکر اسے بھی محفوظ بنانا ہوگا اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور تدارک کے لئے باقاعدہ ادارہ بنانے اور تمام حساس ذرائع ومعلومات پرمسلسل کڑی نظررکھنے کا عمل اب ناگزیر ہو گیا ہے ۔ملک کی قومی سلامتی کے اداروں کی بھی ذمہ داریاں اس حوالے سے بڑھ گئی ہیں ‘حساس ڈیٹا کے حامل تمام اداروں میںملازمین کی بھرتی کا عمل پوری طرح سکیورٹی چیک کے بعد ہونا چاہئے اور بعدازاں بھی ان کی سرگرمیوں پر نظررکھنے کا بندوبست کیا جائے ۔ آئی ٹی کے شعبے کے ملکی ماہرین کی قدر اور اس شعبے میں نوجوانوں کوجامعات میں ایسی تربیت د یجائے اور مضامین پڑھائی جائیں کہ وہ آئی ٹی ٹیکنالوجی کامحفوظ استعمال اور ڈیٹا تحفظ سے واقف ہوںملکی ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے حوالے سے قومی ادارے کاقیام اور ماہرین کی خدمات کا حصول ناگزیر بن گیا ہے ۔ جس میں تاخیر کی گنجائش نہیں۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار