کار حیات ریشمی دھاگوںکا کھیل ہے

محرم کا چاند چڑھنے میں ابھی پانچ یا چھ روز ابھی باقی ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ نے ”سیکورٹی” انتظامات کے حوالے سے ریہرسل کا آغاز گزشتہ روز(منگل) سے ہی کر لیا تھا اور سارا دن ٹریفک جام کی کیفیت سے عوام دوچار رہے’ شام تقریباً پونے سات بجے کے بعد ہمیں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس کی صدارت کرنے جانا پڑا ‘ تو تب تک ٹریفک”الجھی” ہوئی تھی اور شہر کے مختلف حصوں میں گاڑیوں ‘رکشوں ‘ موٹرسائیکلوں کے ہارن بج رہے تھے جس نے ”شور کی آلودگی” میں اضافہ کیا جس رکشے میں سفر کرتے ہوئے ہم منزل مقصود کی جانب رواں تھے ‘ اس کے ڈرائیور کو گلبہار آتے ہوئے ٹریفک کے اسی الجھاوے سے گزرنا پڑا تھا اور اس نے ہمیں بتایا کہ خیبر بازار تک ہمیں پہنچانے کے لئے وہ کونسا راستہ اختیار کرکے رش سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکتا ہے مگر اس کی یہ خوش فہمی بھی غلط فہمی میں تبدیل ہو گئی جب صورتحال کا گھمبیرتا کو اس نے محسوس کیا تو پھر ”آنے والی تھاں” پر آتے ہوئے گل بہار کے انم صنم چوک سے اندرون شہر کے پہلے سے سوچے ہوئے”منصوبے” کو ترک کرکے سیدھی راہ لیتے ہوئے جی ٹی روڈ کی جانب ہی رخ کیا ‘ خوش قسمتی سے فردوس سینما چوک تک تو زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن جیسے یہ بہ وقت تمام قلعہ بالا حصار کے ساتھ مڑتے ہوئے ہم نے آگے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سامنے سے گزرنا چاہا تو ٹریفک کا الجھائو بڑھتا چلا گیا ‘ ایک جانب سے ہم سڑک پر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے تو دوسری جانب سے مسجد طورہ قل بائے سے ہوتے ہوئے خیبر بازار کی ٹریفک نے روڈ بلاک کی سی صورتحال پیدا کردی جبکہ ناز سینما کی بغلی سڑک سے آنے والی ٹریفک نے اسے مزید الجھا دیا اہر بقول شاعر
کارحیات ریشمی دھاگوں کا کھیل تھا
الجھے تو پھر سلجھ نہ سکے تار زیست کے
اور صورتحال واقعی اسی شعر کے مطابق یوں رہی کہ جب دو ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی اجلاس کے بعد ہم نے واپسی کی راہ اختیار کی اور ایک اور رکشے میں بیٹھے تو تب تک وہ جو ٹریفک ریشم کے دھاگوں کی مانند الجھ چکی تھی ‘ تب تک اس کے سلجھائو کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی ‘ حالانکہ عمومی طور پر ہوتا یوں ہے کہ کسی بھی حوالے سے ”یار لوگ” احتجاج کرتے ہوئے سورے پل کو تختہ مشق بنا کر شہر میں ٹریفک جام کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں توٹریفک پولیس اور دیگر سیکورٹی حکام کسی نہ کسی طور ”احتجاجیوں” کے ساتھ گفت وشنید کرکے ٹریفک جام سے عوام کی جان چھڑا لیتے ہیں جس کے بعد ایک ڈیڑھ یازیادہ سے زیادہ دو ڈھائی گھنٹے میں سڑکیں ”واگزار” ہوجاتی ہیں اور ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں ہوجاتی ہے ‘ مگر گزشتہ روز یہ صورتحال تقریباً ساڑھے نو ‘ پونے دس بجے تک تو خود ہم نے ملاحظہ کی ‘ اور معلوم نہیں کہ بالاخر کب معمول کے مطابق ٹریفک چلنا شروع ہوئی ۔ شیخ سعدی نے غالباً ایسی ہی صورتحال کے حوالے سے کہا تھا۔
ای سارباں آہستہ رو
کارام جانم میر ود
یہ تو چند جملہ ہائے معترضہ تھے جبکہ مسئلہ تو محرم الحرام کے دوران سیکورٹی”خدشات” کے پیش نظر شہر بھر میں اٹھائے جانے وہ حفاظتی اقدامات ہیں جن میںنہ صرف موٹرسائیکل پرڈبل سواری کی ممانعت ‘ مختلف علاقوں میں ناکہ بندی کرکے ”مبینہ طور پر” شہرمیںداخل ہونے والے تخریب کاروں پر نظر رکھنا ‘ افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود کرنا’اور پھرآخری دنوں میں پشاور کو مکمل طور پر سیل کرکے جلسوں ‘ جلوسوں اور مجالس کومحفوظ بنانا ‘ شامل ہے ۔ اصولی طور پر تو ایسے اقدامات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے کہ مذہب کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں پرکوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی مگر ان تمام سرگرمیوں کو تحفظ دینا بھی سیکورٹی حکام کی ذمہ داری ہے اس حوالے سے ماضی میں ہونے والی متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں لاتعداد بے گناہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں عام بے گناہ شہریوں کے ساتھ سیاسی رہنما اور اعلیٰ سیکورٹی حکام بھی شامل تھے ‘ اور ایسی صورت میں جب ایک بارپھرمبینہ تخریب کاروںکے شہر میں داخل ہونے کی اطلاعات میڈیا پرسامنے آچکی ہیں اورمتعلقہ حکام نے سیکورٹی تھریٹس جاری کر دی ہیں ‘ ضروری ہے کہ ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ‘ تاہم ابھی محرم کے شروع ہونے میں چند روزباقی ہیں تو پھرسوال توکیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ روز کس وجہ سے ٹریفک جام کی کیفیت نے جنم لیا؟۔اس حوالے سے یعنی محرم الحرام کی وجہ سے سیکورٹی اقدامات کے حوالے سے جوتازہ خبر سامنے آئی ہے اس کے مطابق پشاور میں افغان باشندوں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز کر لیاگیا ہے اور ایسے ا فراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن کے پاس نہ سیٹیزن کارڈز تھے ‘ نہ ہی دیگر دستاویزات ‘ ان کو چودہ فارن ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے مقدمات درج کر لئے گئے ہیں ‘ سکیورٹی حکام کے اس اقدام کو درست قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہوسکتا مگر یہاں ایک اور سوال ضرور ابھرتا ہے کہ ایسے افراد کو پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کی اجازت کیوں اور کس نے دی ‘ اور جس بارڈر پوائنٹ سے ان کو اندر آنے کی ”سہولت” فراہم کرتے ہوئے ان کے داخلے پر آنکھیں بند رکھی گئیں ‘ ان لوگوں کے خلاف کیا تادیبی کارروائی کی گئی جواس بے قاعدگی میں ملوث رہے ہیں؟ اس حوالے سے ہم ایک عرصے سے اپنے کالم میں یہی گزارش کرتے آرہے ہیں کہ حکومت ہر چند مہینے بعدافغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کرکے عوام پر کیوں ان کو مسلط رکھنے کی کوشش کرتی ہے اور جو لوگ ”رضاکارانہ ”واپسی کا قصد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ایجنسی یو این ایچ سی آر سے ہزاروں ڈالر وصول کرکے ایک روز چلے جاتے ہیں مگر دوچار روز بعد پھر”چور راستوں اور غیرقانونی ہتھکنڈوں”سے واپس آکر پاکستانی معاشرے پربوجھ بن جاتے ہیں ۔ آخر ان کو حتمی طور پرواپسی کا راستہ کب بتایا جائے گا؟ بقول شہزاد احمد
یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا!

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان