p613 216

کارکردگی دکھانے کیلئے ایک ہی سال باقی ہے

وزیر اعظم عمران خان نے وزارتوں کو کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جتنا بھی باقی وقت رہ گیا ہے اس میں ہمیں گورننس کی کارکردگی کو بہت آگے لے کر جانا ہے کیونکہ اب ہمارے پاس عذر نہیں ہے کہ ہم سیکھ رہے ہیں، اب کارکردگی کا وقت آ گیا ہے۔ مدت اقتدار کا نصف گزرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے سیکھنے کے استدلال اور ناتجربہ کاری کے اعتراف سے کسی طور اتفاق ممکن نہیں۔ خود وزیراعظم ہی نے اس موقف کا اعادہ کیا تھا کہ ہر حکومت کے ابتدائی نوے دن یعنی تین ماہ اہم ہوتے ہیں۔ اس دوران مسائل کا حل، انقلابی فیصلے اور آئندہ کے مدت اقتدار کے اہداف اور راستے کا تعین ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے دوسوماہرین پر مشتمل ٹیم کا بھی دعوی کیا تھا، اس سے قطع نظر بھی اگر دیکھا جائے تو پہلی بار حکومت میں آنے کے باوجود حکومت کی ٹیم ہرگز ناتجربہ کار اراکین کابینہ پر مشتمل نہیں تھی۔ وزیراعظم کی کابینہ میں شامل افراد پہلی حکومتوں میں وزارتوں کے حامل رہے ہیں۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کے اہم رہنما پارلیمانی کمیٹیوں سے لیکر سٹینڈنگ کمیٹیوں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا حصہ رہ چکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں پانچ سال مدت اقتدار بہ حسن وخوبی پورا کر چکی ہے، اس کے بعد کسی توجیہہ کی گنجائش نہیں بلکہ ُاردو کا معروف محاورہ یہاں حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ بالفرض محال وزیراعظم ہی کے ارشادات کی روشنی میںجائزہ لیا جائے تو بھی معاملات کو سمجھنے کیلئے ڈھائی سال کی مدت بہت زیادہ ہے۔ حکومت چلانے کا سارا عمل منتخب اراکین کے سر نہیں بلکہ حکمران تو بنیادی کام قانون سازی ہے باقی معاملات بیوروکریسی چلاتی ہے جس کا تجربہ، مہارت اور معاملات سے واقفیت برسوں کا ہوتا ہے۔ ہر آنے والی حکومت انہی کے مشوروں اور بریفنگز کی روشنی میں فیصلے کرتی ہے۔ بہرحال اب جبکہ مدت اقتدار کے تقریباً ڈھائی سال ہی باقی ہیں اولین نصف مختلف اشیاء کے بحرانوں ہی میں صرف ہوا، مہنگائی بڑھی باقی مدت اقتدار میں اب ان تمام مشکلات کیساتھ ساتھ حکومت کو بڑا سیاسی چیلنج درپیش ہے۔ عوام تحریک انصاف کے وعدوں اور دعوؤں دونوں ہی کی حقیقت بہ چشم خود دیکھ چکے ہیں۔ ان سارے معاملات کیساتھ موجودہ حکومت کیلئے ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کہ وہ وقت رفتہ کی غفلتوں اور نادانیوں کا ازالہ کرکے کارکردگی اور بہتری لائے، جوئے شیر لانے کے مترادف نظر آتا ہے۔ بہرحال عزم ہو اور نشان منزل پر پوری نظر ہو تو کامیابی مشکل نہیں ہوتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کے پاس اس منزل کو پانے کیلئے مزید وقت نہیں۔ ڈھائی سالوں کا یہ عرصہ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں کے عین مصداق ٹھہرتا ہے۔ ہماری دانست میں حکومت کے پاس اس سال کا باقی نصف بجٹ پیش ہونے کے باعث موجود ہونے کے باوجود گزرا ہوا وقت اس لئے شمار ہوگا کہ مالی سال کے ان مہینوں کا بجٹ پیش ہو چکا ہے جبکہ آخری سال الیکشن کا سال ہوتا ہے، اس سال کا بجٹ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنانے کی روایت ہے، یوں حکومت کے پاس لے دے کے صرف اور صرف ایک سال کارکردگی دکھانے اور مسائل کے حل کا رہتا ہے۔ اس عرصے میں ریلوے سے لیکر سٹیل مل اور پی آئی اے جیسے اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور مہنگائی کے سرچڑھ بولنے والے جادو کا توڑ کرنا ہے، ساتھ ہی ساتھ حکومتی مخالفین سے بھی نمٹنا ہے، افراط زر کا مقابلہ کرنا ہے، گرتی معیشت کو سنبھالا دینا ہے اور نجانے کتنے اور کام سرانجام دینے ہیں، یہ سارے کام وہ ہیں جس میں خسران کو ختم کرنے کی ہی جتن کرنے کی ضرور ہے۔ عوام کی حالت کی بہتری کیلئے نئے منصوبے شروع کرنے اور تحریک انصاف کے منشور پر عملدرآمد کا تو اب وقت ہی نہیں رہا۔ بقیہ مدت اقتدار میں محولہ چند امور ہی بمشکل ہوسکیں تو یہ حکومت کی کامیابی متصور ہوگی۔ باقی معاملات پر دسترس اور پیشترفت میں کئی پیچیدگیاں اور مالی مشکلات آڑے آئیں گی، ان کیلئے ماحول پیدا کرنا اولین اقدام ہے۔ جس کیلئے وزیراعظم کو ملک میں سیاسی استحکام اور اپنی حکومت واقتدار کو مخالفین کیلئے قابل قبول بنانا ہوگا، جو سیاسی مفاہمت ہی سے ممکن ہوگا۔ وزیراعظم اگر ملک میں سیاسی بے چینی کا ادراک کریں اور ملک میں سیاسی عوامی انتشار وبے چینی کے خاتمے کیلئے قدم بڑھا کر اپنی ٹیم کو یکسوئی کیساتھ کارکردگی دکھانے کا موقع فراہم کریں تو موزوں ہوگا۔ نصف مدت اقتدار میں اپنی کارکردگی سے مطمئن نہ ہونے کا اعتراف خود احتسابی کی ایک اچھی روایت اور حقیقت پسندانہ امر ہے جس کے بعد مزید معاملات کے حوالے سے بھی حقیقت پسندانہ کردار ادا کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی