3 101

کب اشک بہانے سے ٹلی ہے شب ہجراں

اصل بات کیا ہے؟کوئی کچھ بتا نہیں رہا،مگر نہ صرف سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اطلاعات کو بعض چینلز نے بھی بڑھا وا دیا اور یہاں تک کہا کہ برائلر مرغیوں میں کورونا وائرس کے”جراثیم” پائے جانے کی وجہ سے سرکار نے عوام کو مرغیوں کے استعمال کرنے سے منع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ابھی تک سرکاری طور پر اس سلسلے میں عوام کو باقاعدگی سے اصل حقائق بتاتے چلے کوئی نوٹیفیکشن جاری نہیں کیا جبکہ برائلر مرغیوں کا کاروبار کرنے والی ایسوسی ایشن نے بھی اپنی جانب سے وضاحت کر دی ہے کہ برائلر مرغیوں میں کرونا وائرس کی موجودگی کی خبریں جھوٹی ہیں اور سوشل میڈیا پر اس قسم کی افواہیں جاری کرنے کا مقصد عوام میں بلاوجہ خوف پیدا کرنا ہے ایک عجیب گو مگو کی سی کیفیت ہے عوام حیران ہیں کہ کس کی بات کو درست سمجھا جائے اور کس کے”پروپیگنڈے” کو بے چاری مرغیوں کے خلاف سازش سے تعبیر کیا جائے۔اصولی طور پر تو مرغیوں کو خوش ہوجانا چاہیئے کہ اگر ان کی گردنیں نہیں کٹیں گی تو ان کی جان بچ جائے گی مگر حضرت انسان اس پر بھی کہاں بس کرے گا اور جس طرح چند سال پہلے برڈ فلو کے نام پر مرغیوں کی نسلوں کو زندہ درگور کرنے کی کارروائیاں دنیا بھر میں جاری ہوئی تھیں اور جس کے نتیجے میں کروڑہا مرغیوں کو گڑھے کھود کھود کر زندہ دفن کردیا گیا تھا۔کہیں پھر وہی صورتحال پیدا نہ ہوجائے۔لیکن کمال یہ ہے کہ مرغیاں پھر بھی اتنی سخت جان ثابت ہوئی تھیں کہ دنیا بھر میں ان کی نسل کشی کی یہ تحریک کامیاب نہیں ہوسکی تھی اور جیسے ہی دنیا کو یقین ہوگیا کہ اب برڈ فلو کا خطرہ ٹل گیا ہے تو پھر ان کی نسل پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلنی شروع ہوگئی،بہرحال مزاح سے قطع نظر صورتحال اب اس مقام پرآگئی ہے کہ حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے نہ صرف وضاحت کرے بلکہ جو نو ٹیفیکشن جاری ہوا اس کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر متعلقہ وزارت کے ذریعے باقاعدہ تشہیر کی جائے تاکہ یہ جو گو مگو کی کیفیت پیدا ہوئی ہے اس کو عوام”آریا پار”کے کلیئے کے تحت واضح طور پر سمجھ سکیں۔یعنی بقول یار طرحدار پروفیسر ڈاکٹر نذیر تبسم
دوستی اور دشمنی میں سوچنا کیسا نذیر
آرہونا چاہیئے یا پار ہونا چاہیئے
چونکہ اصل صورتحال سے عوام کو آگاہ کرنا لازمی ہے یعنی اگر واقعی مرغیوں میں کورونا کے عوامل کا پتہ چل گیا ہے تو عوام کو اس بارے میں اصل حقائق نہ بتانا ان کے ساتھ زیادتی ہے اور اگر یہ محض افواہیں ہیں اور بعض سوشل میڈیا کے”جیالوں اور شیروں”نے بے پرکی اڑائی ہے تو بھی اس سازش کو بے نقاب ہونا چاہیئے جیسا کہ ابتداء میں کرنسی نوٹوں ،اخبارات اور رسائل کے بارے میں بھی طرح طرح کی افواہیں گردش میں تھیں اور لوگ خوفزدہ ہوگئے تھے، مگر برائلر مرغیوں کے کاروباری ایسوسی ایشن کی وضاحت کے باوجود چند چینلز پر اس حوالے سے خبریں سامنے آنے کے بعد صورتحال پر شکوک کے سائے لہرا رہے ہیں جن کی متعلقہ وزارت کی جانب سے وضاحت جاری ہونی چاہیئے۔بات خوراک کی ہورہی ہے تو اب ایک اور مسئلے پر بھی غور ہونا چاہیئے آٹے کی قلت کی وجہ سے نانبائیوں نے ایک بار پھر لنگر لنگوٹ کس لیئے ہیں اوردھمکی دی ہے کہ120 گرام روٹی دس روپے میں فروخت کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے آٹے کی قیمت میں14سو روپے تک کے اضافے کی وجہ پنجاب اور وفاقی حکومت کی پالیسی ہے جس کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے نانبائی بے روزگار ہوگئے ہیں نانبائی ایسوسی ایشن کے صدر حاجی اقبال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دس جون سے170گرام روٹی15روپے میں فروخت کریں گے۔صورتحال کے پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو پنجاب کی جانب سے ماضی میں اٹھائے جانے والے اقدامات کا ایک بار پھر اعادہ کیا گیا یعنی خیبرپختونخوا کیلئے گندم اور آٹے کی ترسیل پر پابندی لگا دی گئی تھی اگرچہ گزشتہ روز وزیراعظم کی مداخلت پر یہ پابندی اٹھانے کی خبریں سامنے آئی ہیں کہ چھوٹے صوبوں کیلئے گندم اور آٹے کی نقل وحمل پر پابندی ختم کر کے صوبہ پنجاب کے دوسرے صوبوں کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر قائم ناکہ بندیاں اٹھانے کے احکامات جاری ہوگئے ہیں،جو یقیناً ایک مناسب قدم ہے تاہم ایک تو جب تک پنجاب سے دوسرے صوبوں کیلئے سپلائی بحال ہو تب تک ان صوبوں میں صورتحال معمول پر نہیں آسکتی اور مقامی مارکیٹوں میں آٹا اسی طرح مہنگا رہے گا جبکہ یہاں ایک اہم نکتے کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے کہ صوبہ پنجاب کا اس سلسلے میں رویہ اس لحاظ سے قابل اعتراض ہے کہ اس قسم کے اقدامات آئین کی سخت خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں ماضی میں ایسا بھی ہوتا رہا ہے(اب کا علم نہیں) کہ پنجاب حکومت ہمسایہ ملک افغانستان کیلئے تو گندم اورآٹا سپلائی جاری رکھتی رہی ہے مگر اپنے ہموطنوں خصوصاً خیبرپختونخوا کے عوام کیلئے پابندیاں لگا کر مسائل سے دوچار کرتی رہی ہے،ایسا نہ صرف مشرف دور میں چوہدری پرویز الٰہی حکومت کا وتیرہ رہا ہے بلکہ میاں شہباز شریف کی حکومت بھی یہی رویہ اختیار کرتی رہی ہے تب بھی انہی کالموں میں اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے راقم ہمیشہ آئین کی خلاف ورزی کا رونا روتا آیا ہے،مگر تب بھی اور اب بھی وفاقی حکومت نے اس جانبدارانہ پالیسی پر خاموش تماشائی سے آگے نہیں بڑھا،اس مسئلے کو ہمیشہ کیلئے حل کرنا انتہائی ضروری ہے اور چھوٹے صوبے اس ضمن میں سپریم کورٹ سے رجوع کر کے اس ستم کے خاتمے کیلئے کوششیں کریں۔بصورت دیگر ان صوبوں کے عوام کو مقامی سطح پر نانبائی اسی قسم کی دھمکیاں دے کر ان پر مہنگائی کو مسلط کرتے رہیں گے۔بقول نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن