کرایہ دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے

آئین کے آرٹیکل 63 -A اور ایک بہت پرانے لطیفے” ہور چوپو” میں کیا تعلق ہے ؟ اور اس کی جانب توجہ کیوں مبذول ہوتی ہے ‘ اس حوالے سے پہلے ان افواہوں ‘ خبروں یا اطلاعات کو سامنے رکھنا پڑے گا ‘ بلکہ سوشل میڈیا پراس وقت بھی بعض وزراء کے حوالے سے ایسی پوسٹیں وائرل ہیں جن میں کہا جارہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے روز سرکاری ممبران قومی اسمبلی کو ایوان میں داخل ہونے سے منع کرنے کی حکمت عملی اختیارکی جائے گی اور اس کے باوجود اگر حکومتی جماعت کا کوئی ممبر داخل ہو گا تو سپیکر اس کے خلاف رولنگ دے گا یعنی اس پر فلور کراسنگ کا اطلاق کرتے ہوئے اسے ڈی سیٹ کردیا جائے ‘ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس حوالے سے ایک آرڈی ننس بھی لانے پر غور کیا جارہا ہے جس میں فلور کراسنگ کے حوالے سے اراکین کی ممبر شپ ختم ہوجائے گی اور یوں وہ ووٹ دینے کے قابل نہیں ہو سکے گا۔ اپنے لڑکپین کے دور کے لطیفے اور نئی صورحال میں تعلق کو واضح کرنے کے لئے پہلے آرٹیکل 63-A پر ایک نظر ڈالتے ہیں ‘ آئین کے اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی پارلیمانی پارٹی کا کوئی منتخب رکن ایوان سے اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے استعفیٰ دیتا ہے یا کسی اور پارٹی کی رکنیت حاصل کرلیتا ہے ‘ رائے دیتا ہے یا رائے دینے سے گریز کرتا ہے ‘ بمطابق اس سیاسی پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف بابت انتخاب وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ ‘ عدم عتماد یا اعتماد کی خاطر یا کسی مالیاتی بل کے بابت ‘ تو اس سیاسی پارلیمانی پارٹی کا سربراہ اپنی جماعت سے اس کی رکنیت ختم کر دے گا اور اس فیصلے کی اطلاع پریذائیڈنگ افسر کو اور اس رکن کو بہم پہنچا دے گا ‘ شرط یہ ہے کہ پارلیمانی جماعت کا سربراہ اس فیصلہ اور اعلان سے پہلے متعلقہ رکن کو بذریعہ نوٹس موقعہ فراہم کرے کہ اس کے خلاف یا حق میں ایسا کیا جارہا ہے ‘ اس اعلامیہ کی وصولی کے دو دن کے اندر ایوان کا پریذائیڈنگ افسر ‘ چیف الیکشن کمشنر کو معاملہ سپرد کرے گا جو اطلاع کی پہنچ کے تیس دن کے اندر اس اعلانیہ کی تصدیق کرے گا اور رکن متعلقہ کو آگاہ کر دے گا ‘ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے متاثرہ جماعت تیس دن کے اندر عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر سکتی ہے اور عدالت عظمیٰ اپیل دائر ہونے کی تاریخ سے تین ماہ کے اندر فیصلہ صادر فرما دے گا۔ گویا کسی رکن کو انحراف کے بعد پارٹی سے خارج کرنے کا یہ پراسیس خاصا طویل ہے ‘ اس لئے مبینہ طور پر حکومت جو آرڈی ننس لانا چاہتی ہے اور چونکہ اس کا تعلق ممبران کی اپنی جماعت سے انحراف بھی پہلے کئے جانے کی افواہوں کے ساتھ ہے یعنی ان کے مبینہ (فرضی یا حقیقی) انحراف کے حوالے سے آرڈی ننس کے ساتھ ہے اس لئے محولہ لطیفے سے اس کے تعلق کو آسانی سے جوڑا جا سکتا ہے ‘ لطیفہ جیسا کہ گزارش کی ہے بہت پرانا ہے اور آسانی کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ لطیفے کی قدامت ”نصف صدی کا قصہ ہے ‘ دو چار برس کی بات نہیں” سے بھی آگے کی بات ہے ۔لطیفہ کچھ یوں ہے کہ کسی گائوں میں تین سادہ لوح بھائی فصل کی بوائی کے بارے میں صلاح مشورہ کر رہے تھے ‘ آخر”کماد” یعنی گنے کی بوائی پر تینوں متفق ہو گئے ‘ مگر اچانک چھوٹے بھائی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ گائوں کا فلاں شخص گنے کی فصل پر دھاوا بولے گا اور روزانہ چوری کے گنے چوسے گا۔اس پر تینوں بھائی مشتعل ہو گئے اور لاٹھیاں اٹھا کر ممکنہ ”چور” کے گھرپر جا کر اسے آواز دی ‘ وہ باہر نکلا تو اس پر ڈنڈوں کی بارش کرتے ہوئے اس کی خوب مرمت یہ کہہ کر کی کہ ”ہورچوپو” یعنی اور گنے چوسو حالانکہ ابھی گنے بوئے ہی نہیں گئے تھے ۔ یہاں بھی ایسی ہی صورتحال ہے ‘ ابھی حکومت جماعت کے ”ممکنہ منحرفین ” نے پارٹی سے انحراف کرتے ہوئے عدم اعتماد کے حوالے سے اپنا ووٹ پول ہی نہیں کیا ‘ بلکہ اس کی نوبت ہی نہیں آئی ‘ کہ ایسا تو تب ممکن ہے جب اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا’ مگر اجلاس بلوانے سے پہلے ہی تمام اراکین پر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت پر پابندی عاید کی گئی اور اس کے باوجود اگر کوئی حکومتی رکن اسمبلی کسی نہ کسی طور اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچ جائے تو اسے کسی ممکنہ آرڈیننس کے تحت یا تو داخل ہی نہ ہونے دیا جائے یا ڈی نوٹیفیکیشن کلاز کا اطلاق کرتے ہوئے اس کی اسمبلی رکنیت ہی ختم کی جائے ‘ یعنی گنے ابھی بوئے ہی نہیں گئے ‘ کھیت میں ان کی پراخت کے بعد لہلہانے کا موقع ہی نہیں آیا ‘ مگر فرضی حملہ کرکے گنے چوری کرکے چوسنے والے پر ڈنڈے برسائے جائیں ‘ حالانکہ جوسرکاری جماعت کا رکن اجلاس میں آئے گا ممکن ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے اس کے خلاف اور اپنی جماعت کے حق ہی میں کیوں نہ ووٹ پول کرنا چاہتا ہو ‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اجلاس میں شرکت کے لئے آنے والے سرکاری پارٹی کے ممبران کو یہ سوچ کر کہ وہ وزیر اعظم کے خلاف ہی ووٹ پول کرے گا ‘ ڈی نوٹیفیکیشن کلاز کا شکار کیسے کیا جاجاسکتا ہے اور آئین کی کس شق کے تحت سرکار ایسا کر سکتی ہے ؟ جیسا کہ اوپر کی سطور میں اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی وضاحت کرکے ثابت کیا جا چکا ہے کہ کسی بھی ممبر کو اسمبلی رکنیت سے محروم کرنے کے لئے آئینی تقاضوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟