کردار ‘ اقتدار اور اقدار

میرے ایک پروفیسر دوست ہیں ‘ جو جسم کے لحاظ سے بہت تنومند اور مضبوط دکھائی دیتے ہیں ‘ لیکن گھٹنوں میں درد کے باعث بہت تکلیف میں ہیں۔ جب بھی ملاقات ہوتی ہے وہ ایک عجیب بات کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی علوم ادبیات اور تاریخ و فنون لطیفہ سے منسلک لوگ ذہنی و فکری لحاظ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے علمی مصروفیات کے سبب چاق وچوبند رہتے ہیں جبکہ سائنسز کے مضامین کے لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد ذہنی و جسمانی دونوں لحاظ سے بہت جلد مفلوج ہو جاتے ہیں۔ ان کی اس بات کے جواب میں اکثر عرض کرتا ہوں کہ دراصل چیزوں کا تعلق مضمون کے ساتھ نہیں بلکہ انسان کے نصب العین کے ساتھ ہوتا ہے ‘ نصب العین اور مقصد حیات ایک ایسی چیز ہے جوا نسان کی پوشیدہ قوتوں اور صلاحیتوں کو بیدار کرکے جلا بخشتا ہے اور انسانیت کو اپنے مقصد حیات کے حصول کے لئے قربانی دینے کا فن واصول اسلامی تعلیمات میں دیا گیا ہے ۔
خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب کے بگڑے معاشرے کی اصلاح کا مقصد اٹھایا اور وادی بطحاء میں تن تنہا کام شروع کیا۔ چند برسوں کے اندر اندر مکہ المکرمہ کی وہ سعید روحیں جن کے دل وہ پیغام راسخ ہو گیا آپۖ کے دست مبارک پرایسی بیعت کی کہ زندگی کے آخری دم تک نبھا کر دکھایا۔
کسی بھی نصب العین کے ساتھ خلوص دل کے ساتھ کھڑے رہنے اور اس کے حصول کے لئے تن من دھن کی قربانی دینے کے لئے کردار(کریکٹر) بنیادی جوہر ہے ۔کردار کی تشکیل کے لئے زندگی کے معاملات میں سچ پرقائم رہنے اور جھوٹ سے ہر صورت بچے رہنے کی شرط اولین و آخرین ہے۔ ”سچ نجات دلاتا ہے اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے”۔
دنیا میں جتنی بھی بڑی بڑی تحریکیںاٹھی ہیں ان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار انہی اصولوں پر ہوتا ہے جو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو عطا فرمائی ہیں خود تحریک پاکستان کی ابتداء وبنیادوں میں یہی جذبہ کارفرما رہا۔اسی نصب العین کے تحت سینکڑوں علماء اور زعماء نے استخلاص وطن کے لئے قربانیاں دیں۔
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تندجولاں بھی
تند جولاں بھی نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا
لیکن گزشتہ 75 برسوں میں ان عظیم قربانیوں کا جوحشر ہوئے وہ اس وقت دنیا کے سامنے ایک تماشا بنا ہواہے ۔ پاکستان جیسا وسائل سے مالا مال ملک بدترین مہنگائی کے شکنجے میں کسا ہوا ہے ۔ عالمی مالیاتی اداروں کے اربوں ڈالر سودی قرضوں نے قوم کے ہر فرد کو مقروض بنا کر رکھا ہے ۔ لیکن ہم ہیں کہ نہ ہمارے سامنے کوئی نصب العین ہے نہ مقصد زندگی اور نہ ہی تعمیر وطن کا جذبہ ہمسایہ حریف ملک بھارت دنیا کے سپر پاور امریکہ کی مدد وحمایت کے ساتھ کامیابی پر کامیابی حاصل کرتا جارہا ہے اس نئی صورتحال اس کو اتنا دلیر بنا دیا ہے کہ ان کے وزیردفاع پاکستان میں گھس کر ہمیں مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے ۔ علاوہ ازیں اس وقت ہمارا قومی مشغلہ یہ ہے کہ عمران خان اور اس کی جماعت پی ٹی آئی کوکیسے پاکستان سے نابود کیا جائے ۔ اس حوالے سے پریس کانفرنسوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ۔ ویسے انسان بھی کیا چیز ہے ‘ مجموعہ اضداد۔۔ کبھی تولہ ‘ کبھی ماشہ چند برس قبل اسلام آباد کی طرف مارچ کا ہیرو بننے کے لئے کوشاں تھا ۔ اور آج ۔۔ شاید عمران خان کے خلاف نو مئی کے حوالے سے وعدہ معاف گواہ بھی بن جائے ۔۔ ایسے یہ مواقع پر کردار کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ عمران خان ہی کے طفیل پانچ برس تک پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے سیاہ و سفید کے مالک اور پھر وفاقی وزیر دفاع ‘ افواج پاکستان کے امور کے نگران وزیر دفاع۔ حالانکہ یہ وہ شخص ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کا انچارج تھا ۔ لیکن پچھلے دنوں جب مختصر پریس ٹاک میں انہوں نے بتایا کہ ہمیں ایجنسی والوں نے روک رکھا تھا جاننے والوں کے ماتھے ٹھنکے تھے ۔ایسے مواقع پر نصب العین کے ساتھ خلوص اور مستقبل کاویژن کام آتا ہے اور پھر پختون ولی ؟ دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو وژینری ہوتے ہیں اور ویژن ہی انسان کو مصیبتوں میں جینا سکھاتا ہے ورنہ صرف اقتدار کے بھوکوں کاحال اس وقت ایک دنیا دیکھ رہی ہے ۔ انگریز کے دور میں کانگریس کے بڑے بڑے رہنما جیسے حسرت موہانی ‘فضل حق خیر آبادی وغیرہ سخت قید بامشقت سے گزرے تھے لیکن ان وژن(آزادی و استخلاص وطن) اتنا بلند تھا کہ مولانا حسرت موہانی جیل کے اندرچکی پیستے ہوئے کمال شاعری بھی کرتے تھے جو آج بھی اسی راہ کے راہوں کوحوصلہ دلاتی ہے ۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
ایک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
جوچاہے سزا دے لو ‘ تم اوربھی کھل کھیلو!
پرہم سے قسم لے لو ‘ کی ہو جوشکایت بھی
سیاست ہمارے ہاں تجارت اور اقتدار کا نام بن کر رہ گئی ہے ورنہ سیاست کے لئے بہت اعلیٰ ظرف اور اقدار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سیاست تو عبادت ہے ‘ عوام الناس ‘ زمانے کے کچلے ہوئوں کی داد رسی اور خدمت کا نام ہے ۔۔کاش ‘ عمران خان ‘تحریک انصاف کی تحریک کے لئے نظریاتی کارکنوں کی تربیت کا اہتمام بھی کرتے تو آج یوں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ”لیڈران” نہ گرتے ۔قوموں کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اقدار کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ اقدار ‘ قدر کی جمع ہے قدر کو انگریزی میں ویلیو(Value) کہتے ہیں ۔ قدر ‘ امانت ‘ دیانت ‘ وفاشعاری ‘ اخلاص اور اپنے مشن و نظریات کے ساتھ پختہ اور بے لوث وابستگی کا نام ہے ۔ اس کے حصول کے لئے کارکنان کی طلبہ کی طرح باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ریفریشرکورسز کے ذریعے نظریاتی وعملی مراحل سے گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عمران خان نے نصب العین بہت بلند رکھا ‘ لیکن کارکنان کی تربیت نہ کرسکا ۔ اور نتیجہ اس وقت ہر ایک کے سامنے ہے ۔ لیکن شاید اس میں بھلائی ہو کہ اب کے جوباقی رہ جائیں توہر امتحان سے گزرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ خود عمران خان کو ان حالات کے ذریعے وقت نے بڑا سبق پڑھایا ہوگا۔لیکن اب انکو قرآن کریم کے عمیق مطالعے کی ضرورت ہے ۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی اچھے استاد کے ساتھ دہرانے اور دورہ کرنے کی ضرورت ہے ادھر ادھر سے اچکتے واقعات سخت حالات میں وہ حوصلہ و ہمت نہیں دیتے جس کی ضرورت ہوتی ہے ۔
کپتان اور اس کے مخلص کارکنان بہت بڑے امتحان اور آزمائش سے گزر رہے ہیں لیکن افراد اور اقوام کی زندگیوںمیںاس قسم کے نشیب و فراز آتے رہتے ہی۔ اصل مسئلہ یقین محکم کا ہوتا ہے ۔ خان پرلوگوںاپنی دانست میں سو دروازے بند کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ایک سو ایک واں دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج پہلے کی نسبت زیادہ مقبول و معروف ہوا ہے ورنہ امریکی میڈیا ان کے انٹرویو کو آٹھ بجے کے پرائم ٹائم پر چلاتا؟۔ لہٰذا موجودہ حالات میں پاکستان کے خیر خواہی کے طلبگار قوتوں سے یہ درخواست ہے کہ ملک و قوم کی خاطر ضد وانا اور ہٹ دھرمی وغیرہ چھوڑ کر حقائق پر غور کریں۔خان کو بیرونی دنیا اوورسیز پاکستانیوں اور پاکستان کے اندر ان تمام حربوں کے باوجود جو مقبولیت حاصل ہے اس کا اندازہ پچھلے دنوں تحریک انصاف کے جھنڈا کمپیئن سے لگایا جا سکتا ہے ۔کیا اس بات کو سمجھنے کے لئے بہت زیادہ عقل و دانش کی ضرورت ہے کہ ملکی استحکام کے لئے غیر جانبدارانہ و منصفانہ انتخابات وقت کی پکار ہے ۔ کیا ایک شخص کو مائنس کرنے کی مہم میں ہم بھارت کی دھمکیاں ‘ معاشی بدحالی اورعالمی دنیا میں پاکستان کی تنہائی اور اسٹرٹیجک معاملات یکسربالائے طاق رکھیں گے ۔ نہیں نہیں ‘ یہ بہت گھاٹے کا سودا ہو گا اور خیر خواہان پاکستان ایسا کبھی اور قطعاً نہیں چاہیں گے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند