کررہا تھا دل کے زخموں کا شمار

جنگیں جہاں تباہی اور بربادی کی داستانیں تاریخ کے صفحات میں محفوظ کردیتی ہیں وہاں بعض واقعات ایسے بھی سامنے آتے ہیں جن سے قوموں کے عزم وہمت کا احساس ہوتا ہے ‘ اس حوالے سے انسانی تاریخ بھری پڑی ہے ‘سپین کے ساحل پر کشتیاں جلا کر مختصر سپاہیوں کے ساتھ فنا و بقاء کی جنگ لڑنے کا واقعہ ہو ‘ دیبل کی بندرگاہ پرراجہ داہر کوشکست دے کر برصغیر میں اسلام کی شمع روشن کرنے کی داستان ہو ‘ یاپھر جدید دور میں لگ بھگ 57برس پہلے پاک بھارت جنگ کے دوران شجاعت کی انمٹ داستانیں رقم کرنے کے واقعات ہوں ‘ خصوصاً بی آر بی نہر او رچونڈہ کے حاذ پر بھارتی پسپائیوں کے عبرت ناک واقعات ‘ جن کے بارے میں(آنریری کیپٹن) جعفر طاہر نے مغرب میں قدیم دور کی ایک لڑائی کا جو سپارٹا کے لوگوں نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے خلاف صرف تین سو کی تعداد کے ساتھ لڑ کر تاریخ رقم کی ‘ موازنہ کرتے ہوئے صرف ایک سو فوجیوں سے بھارتی یلغار کو روکنے کو ایک نظم میں جس طرح بیان کیا ہے اس کے چند مصرعوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سپارٹا کے تین سو سپاہیوں کے مقابلے میں صرف ایک سو سپاہیوں کی مدد تاریخ کیسے رقم کی جاتی ہے ۔
سپارٹا کے لوگو
کیسی تھی وہ لڑائی
وہ تین سو تھے لیکن
یہ ایک سوسپاہی
اللہ کے سپاہی
صرف جنگی محاذوں پر ہی تاریخ رقم نہیں کی جاتی بلکہ عوامی محاذ پر بھی عزم و ہمت کے انمنٹ نقوش چھوڑنے والے واقعات سے قوموں کی بلند حوصلگی کا اظہار کیا جا سکتا ہے ‘ اس حوالے سے 65ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھی ملک بھر میں جہاں عوامی سطح پر اخلاص کی داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں وہاں لاہور کی فضا میں لڑی جانے والی تاریخی جنگ کے دوران زندہ دلان لاہور نے جس طرح اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر پاکستانی شاہینوں کو بھارتی طیاروں کا شکار کرتے دیکھا اور کسی خوف کو قریب تک پھٹکنے نہیں دیا ‘ حالانکہ فضائی حملے کے سائرن بجائے جاتے رہے تاکہ عوام محفوظ مقامات میں پناہ لے سکیں لیکن لاہوریوں کی جانب سے بھارتی طیاروں کے یکے بعد دیگرے گرتے ہوئے دیکھ کر”بوکاٹا” کے فلک شگاف نعروں نے گویا اسے پتنگ بازی بنا کر رکھ دیا تھا اور اسی وجہ سے بعد میں ہلال استقلال لاہور کوعطا کیا گیا ‘ ایسے لاتعداد واقعات دراصل قوموں کے عزائم کا پتہ دیتے ہیں ‘ ایسی ہی ایک خبر یوکرائن اور روس کی موجودہ جنگ میں ایک نہتی خاتون نے رقم کی ہے جو ان دنوں میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے ‘ اور جس نے دوسرے جنگ عظیم کے دوران روسی محاذ پرجنم لینے والی ایک داستان کی جانب توجہ دلا دی ہے خبر یہ ہے کہ یوکرائن پر حملے کے بعد روسی فوجی دارالحکومت کیف سمیت مختلف علاقوں پر جس طرح چڑھائی کر رہے ہیں جس سے متعدد ہلاکتوں کی تصدیق بھی ہو چکی ہے ‘ یوکرائن کی فضا میں جس طرح دھماکوں کی گونج سنائی دے رہی ہے وہیں یوکرائن کی ایک بہادر خاتون کے الفاظ نے عالمی میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے ‘ ڈیلی میل پر جاری ویڈیو میں یوکرائن کی خاتون کو شہر میں موجود روسی فوجی پر غم و غصے کا اظہار کرتے دکھایاگیا خاتون ہتھیاروں سے لیس فوجی کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوئیں اور اس سے سوال کیا کہ وہ اس ملک میں کیا کر رہے ہیں؟خاتون کے غصے کو دیکھ کر روسی فوجی نے انہیں تحمل کا مشورہ دیا ‘ خاتون نے اپنا غصہ روسی فوجی اہلکار پر نکالا اور پھر جاتے جاتے پلٹ کر کہا کہ ”آپ سورج مکھی کے بیج اپنی جیب میں رکھیں تاکہ یہ بیج آپ کے مرنے کے بعد یوکرائن کی زمین پر اگیں۔”اسحاق اطہر صدیقی نے کہا تھا
کر رہا تھا دل کے زخموں کا حساب
تم نے سمجھا شکوہ بے جا اسے
خاتون نے سورج مکھی کے پھولوں کے بیج کا حوالہ یونہی نہیں دیا بلکہ اس کے پیچھے ایک پوری داستان موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ دوسرے جنگ عظیم کے دوران جب روس پر اتحادی افواج نے دھاوا بولا تو روسی فوجیوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہزاروں بلکہ ان سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں جہاں ایک جانب اتحادی افواج کو ہلاک کر ڈالا وہاں بہت بڑی تعداد میں اتحادی فوجی شدید سردی اور برفباری کے دوران کمک نہ ملنے او بھوک سے بھی ہلاک ہو گئے ۔ ان فوجیوں کو روسی سرزمین پر دفنانے کے لئے ایکڑوں پر پھیلے ہوئے قبرستان بنانا پڑے ‘ ان سپاہیوں کے لئے مختص قبرستانوں میں ان کے ناموں کی شناخت کے لئے یادگاریں تعمیرکرکے جا بجا ان کی ان یادگاروں پر ہلاک ہونے والوں کے نام کندہ کئے گئے ہیں جبکہ اتنی وسیع و عریض اراضی میں قبروں کی تعمیر ممکن نہیں تھی اس لئے ہر فوجی کے لئے ایک ایک سورج مکھی کا پھول اگا کر ان کے جسد خاکی کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا ‘ اس واقعے پرایک فلم بھی بنی ہے جس کا نام ہی”سن فلاور” ہے اس فلم کو اس کی کہانی اور فلم بندی کی وجہ سے کلاسک کا درجہ حاصل ہے ‘ فلم میں عالمی شہرت یافتہ اداکارہ صوفیہ لارین نے مرکزی کردار ادا کیا ہے ‘ فلم دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ‘ اس فلم نے کئی عالمی ایوارڈ بھی حاصل کئے ہیں ‘ مختصر کہانی کچھ یوں ہے کہ جنگ کا آغاز ہوتے ہی اتحادی افواج لام بندی کے تحت جنگ میں جھونک دی جاتی ہیں ‘ صوفیہ لارین کا شوہر بھی جنگ میں حصہ لینے جاتا ہے ‘ اور جنگ کے اختتام پر جب بچ جانے والے سپاہی اپنے اپنے علاقوں میں واپس آتے ہیں تو تمام فوجیوں کے اہل خانہ ان کی تصویریں لیکر ریلوے سٹیشنوں پر انہیں بتا کر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ صوفیہ لارین بھی اپنے شوہر کی تصویر لئے روزانہ ریلوے سٹیشن جاتی ہے مگر کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا ‘ ایک روز ایک فوجی تصویر کودیکھ کر تھوڑا سا ٹھٹھک جاتا ہے ‘ مگر پھر آگے بڑھتا ہے اور یہیں سے کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے ‘ صوفیہ لارین اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اسے حقیقت بتا دے ‘ اس سے معلومات لیکر وہ روس جا پہنچتی ہے اور اس علاقے میں تصویر دکھا دکھا کر پوچھتی رہتی ہے ‘ یوں اسے اپنا کھویا ہوا شوہر تلاش کرنے کے لئے سورج مکھی قبرستان میں جاکرگائیڈ کی مدد سے کتبوں پر کنندہ ناموں میں جب اپنے شوہر کا نام نظر نہیں آتا تو پھروہ قریبی قصبوں کا رخ کرتی ہے ‘ جہاں بالآخر اس کا شوہر اسے مل جاتا ہے مگر وہ وہاں شادی کرکے اپنے دوبچیوں کے ساتھ مقیم ہوتا ہے ‘ لیکن وہ ان بچوں کو دیکھ کر واپس آجاتی ہے ‘ کہانی بہت خوبصورت اور ابھی جاری ہے ‘ مگر یوکرائن کی خاتون کی جانب سے سورج مکھی کے بیج کا تذکرہ اپنے تاریخی پس منظر کو یاد دلاتا ہے کہ جس طرح سورج مکھی قبرستان موجود ہے ‘ یوکرائن میں ایک اور سورج مکھی داستان جنم لے سکتی ہے ‘ بقول نسیم سحر
موسم گل جو خزاں رت تجھے رستے میں ملے
اس سے کہیو کہ کوئی شاخ ہری چھوڑ بھی دے

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل