3 431

کرسی کرسی ہوتی ہے

گزشتہ دنوں مختلف محکموں سے ریٹائر ہوئے اپنے چند دوستوں سے ایک عرصہ بعد ملاقات ہوئی۔ یوں تو گاہے گاہے ملنا رہتا ہے مگر اس بار کوویڈ نے سب کو گھروں میں ہی پابند رکھا کہ اس وبا سے بچنے کی یہی احتیاط بتائی گئی ہے۔ میرے یہ کرم فرما اعلیٰ عہدوں سے سبکدوش ہوئے ہیں ۔ایک خاص انداز سے عمر کا ابتدائی اور بیشتر وقت کسی کام میں گزارنے کے بعد انسانی مزاج میں مخصوص عادات بھی راسخ ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں جب وہ طرز زندگی اچانک ترک کرنی پڑ جائے تو جہاں عدم مصروفیت اور فراغت سے بے کاری پیش رہتی ہے وہاںیہ احساس بھی اذیت دیتا ہے کہ اس زندگی سے وابستہ مراعات ، اختیارات ، عزت وتکریم اور آسائشیں بھی ختم ہو گئیں۔ احساس کی یہ تلخی صاحبانِ اقتدار اور سرکاری حکام میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ یوں تو ریٹائرمنٹ کے نفسیاتی اثرات میں کم وبیش یکسانیت ملتی ہے مگر بہت سے افرادکو مختلف الجھنوں کا شکار پایا ہے۔ اس ضمن میں عمر کے باعث جنم لینے والے جسمانی عوارض اور بڑھاپے کا احساس تو ریٹائرڈ لوگوں کی ایک اکثریت میں ہوتا ہے لیکن اپنے آپ کو ناکارہ اور بے کار سمجھنے والے خود بھی پریشان رہتے ہیں اور اپنی اس خرابی سے گھر والوں کو بھی تنگ کرتے ہیں۔ ان دوستوں میں ایک صاحب میرے بھی افسر رہ
چکے ہیں، اپنے دفتر کے ان لوگوں سے ہمیشہ شاکی رہتے ہیں جو انہیں ملنے نہیں آتے۔ اس بار ملے تو وہی گلے شکوے بلکہ اپنے آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ کیوں ایسے لوگوں کو فائدہ دیا جو احسان فراموش نکلے۔ وہ غصہ میں تھے اور ان باتوں سے بلڈ پریشر کے مریض بھی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ابھی تک ریٹائرمنٹ کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا میں نے انہیں بتایا کہ دفتر والوں سے آپ کا تعلق ذاتی ہرگز نہ تھا۔ اس لیے ان کے یہاں آنے کا کوئی جواز نہیں بنتا جیسے آپ کو معلوم نہیں کہ وہ اب کس حالت میں ہیں ، اسی شہر میں ہیں یا کہیں چلے گئے۔ مفید زندگی بسر کرنے کے لیے عہدہ، گریڈاور کرسی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ انسان اپنی محدود حیثیت میں بھی کار خیر کا اہل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس عمر میں تو بعض اوقات خاموش رہنا اور عزیزوں یا کسی دوسرے کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑانا بھی ایک لحاظ سے خیر کا کام ہوتا ہے۔ میرادوسرادوست ایک قابل اور محنتی افسر رہ چکا ہے ۔حکومتی پالیسیوں کی ترویج میں نمایاں کام کیا ہے۔ وہ اب بھی اسی انتظار میں رہتا ہے کہ دفتر والے آکر اس سے مشورہ لیں گے۔ ان سے بھی ملنا ہوا تو کہنے لگے کہ دفتر کا بڑا برا حال ہے ،سب نالائق جمع ہو گئے ہیں ۔کسی چٹھی کا پڑھنا وڑھنا بھی نہیں آتا۔ ان کی یہ بات سن کر مغلیہ تاریخ کا ایک قصہ یاد آیا۔ جب شاہ جہان بادشاہ کو قلعہ میں نظر بند کیا گیا تو طویل فراغت سے تنگ آکر اس نے حاکم وقت اورنگ زیب کو پیغام بھیجا کہ ”میں سارا دن بے کار بیٹھا تنگ آجاتا ہوں ،آپ کچھ بچے بھجوا دیں تاکہ انہیں پڑھا کر اپنا وقت گزار لیا کروں”۔ اورنگ زیب کا جواب تھا کہ” حکومت چلی گئی مگر مزاج میں سے حکمرانی نہیں گئی !”۔ اگر دیکھیں تو دونوں غلط نہ تھے۔جس نے ملک کا بوجھ سنبھالا ہو اور منہ سے نکلا لفظ قانون ہو ، وہ قطعاً بے کار اور فارغ نہیں بیٹھ سکتا جبکہ اورنگ زیب کا جواب انسانی نفسیات کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عمر بھر ایک رنگ ڈھنگ میں رہنے سے ذہن اور دیگر اعصاب بھی اُسی کارکردگی کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں جائزہ لیں تو عملاً ہم بھی بعض امور کے لحاظ سے شاہ جہان بن کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ہمارا گھر ،دفتر،کاروبار ،یہ سب ہماری
مملکت ہی تو ہے اور ہم اس مملکت کے شاہ ہیں۔ یہ شاہی چلتی رہتی ہے اور پھر ایک دن ریٹائرمنٹ یہ سب ٹھاٹھ باٹھ ختم کر دیتی ہے۔ کل جس کمرے کے باہر اس کے نام کی تختی چمک رہی تھی ،اب وہاں کسی اور کا نام جگمگا رہا ہوتا ہے۔ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے جو ریٹائرمنٹ کے نفسیاتی تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپنے لیے کوئی کارآمد،مفید اور صحت مند مشغلہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یوں وہ خود کو ناکارہ، بے کار اور بوجھ محسوس کرنے کی بجائے فعال اور خود مختار خیال کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں دوبارہ ایسا مقام حاصل کر لیتے ہیں جسے پہلے کھو بیٹھے تھے۔ میں نے گزشتہ سال اپنے ایک ریٹائرڈ دوست کو کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیا تھا اور چند کتابیں بھی تحفہ میں دی تھیں۔ اب ملنے گیا تو بڑا خوش تھا ،کہہ رہا تھا کہ آپ کی کتابوں نے تو مجھے بدل کر رکھ دیا۔ ساری عمر دفتر میں جھوٹی باتوں اور مصنوعی مسکراہٹوں میں گزار دی۔اب معلوم ہوا کہ اپنائیت کیا ہوتی ہے۔ جب کمرے کے دروازہ پر دستک ہوتی ہے اور میرے وہ بچے جو اب خود باپ اور ماں بن چکے ہیں ، ایک سچی مسکراہٹ سے کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو اس مسکراہٹ کا مزہ اسے آتا ہے جو ریٹائر ہو چکا ہو ، بوڑھا ہو اور مطلبی دنیا سے چھٹکارہ پا چکا ہو۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی