کرنجوا اُگا

وزیر اعظم عمر ان خان نے سما جی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ یورپین یو نین کو نسل کے صدر چارلس مائیکل سے یو کرائن کی صورت حال پر با ت کی اور یوکرائن میں جا ری عسکر ی تنا زع پر تحفظات کے اظہا ر کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پر مرتب ہو نے والے اس کے مہلک معاشی اثرات پر روشنی ڈالی ۔وزیر اعظم ایسے وقت روس تشریف لے گئے تھے جب روس نے یو کرائن سے جنگ چھیڑ دی تھی ۔ استفسار کیا جا تا ہے کہ ایسے گھمبیر حالا ت میں وزیر اعظم روس کیو ں تشریف لے گئے جو اب یہ ملتا ہے کہ روسی صدر نے دعوت دی تھی ، چنا نچہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر دعوت کو مو خر رکھا جا سکتا تھا ۔ پھر یہ کہ روسی صدر ولا دی میر پیوٹن سے دو بہ دو ملا قات جو دکھائی گئی اس ملا قات میں دونو ں ممالک کے جھنڈے آویز اں نہیں تھے ، باقاعدہ سرکاری سطح پر ہونے والی سربراہی ملا قات کے موقع پر اپنی اپنی سائٹ پر قومی پر چم آویزاں ہو ا کر تے ہیں اگر ملا قات نجی طور پر ہو ااور اس کا سرکاری طورپر کوئی لینا دینا نہ ہو تو قومی پر چم آویز ا ں نہیں کئے جا تے ۔چنا نچہ کسی ملک کی دعوت پر سرکاری پرٹوکو ل کے مطا بق ملاقات ہوتی ہے ۔خیر یہ الگ سی بات ہے مگر روس کے دورے کے تاثرات کچھ گنجلک سے نظر ہی نظر آئے ۔ لیکن اس سے بڑھ کر وزیر اعظم کے حالیہ عوامی جلسے سے خطاب پر بھی بڑ ی تنقید کی جا رہی ہے ۔ کہ مو صوف نے جلسے میں مخالفین کے لیے جو زبان استعمال کی ہے وہ سیا سی آداب کے زمرے میں نہیں آتی ۔ اس میں کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے پی ٹی آئی کا لب ولہجہ کئی سالو ں سے ایسا ہی چلا آرہا ہے ۔وزیر اعظم نے حزب اختلا ف کو مخاطب کرتے ہوئے تحریک عدم اعتما د کے پس منظر میں فرما یا کہ جو جی چاہیں کرلیں ، مگر جب تحریک عدم اعتما د نا کا م ہوجائے گی اس کے بعد میں جو کر وں گا اس کے لیے کیا یہ تیا ر ہیں ۔ ایک سیا سی لیڈر کا یہ طر ز تخاطب محسو س ہو تا ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ابھی تحریک عدم اعتما د کا کوئی وجو د ہی نہیں ہے جب وجو د پذیر ہوگی تو دیکھا جائے گا ، اس کے علا وہ تحریک عدم اعتما د پیش کر نا کوئی غیر آئینی اقدام نہیں ہے ۔ اور حزب اختلا ف یا حکومت سے عدم اعتما د کی صورت میں ایسی تحریک پیش کر نا ہر ممبر کا حق ہے کہ وہ آئینی ضروریات کو پوار کر تے ہوئے عدم اعتما د کی تحریک پیش کردے مگر یہا ں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ پو ری پا رٹی اس پر تلملائی ہوئی ہے ، گویا تحریک عدم اعتماد سے چڑ سی لگ رہی ہے ، ہو نا یہ چاہیے تھا کہ اگر خود پر اور خود کی کا رکردگی پر اعتماد وبھروساہو تو ایسی تحریکوں سے گھبرانا نہیں بنتا بلکہ اس کا تو ڑ کیا جا تا ہے جو اپنے خلا ف تحریک پیش ہو نے پر اس کو نا کا م بنا نے کا حق ہے ۔ سیا سی جائزہ لیا جا ئے تو یہ بات سامنے آرہی ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھی بچھڑ رہے ہیں خاص طو ر جن کو نظریا تی ساتھی ہو نے کا اعزاز ہے ۔ جس کی مثال جہا نگیر ترین ۔ رند ، اب علیم خان وغیر ہ ہیں ۔ کسی کا بھرکس نکا لنے کی بجائے بہتری اور سلا متی کا راستہ یہ ہے کہ پہلے اپنے گھر کی چا ر دیو اری کو دراڑیں پڑنے سے بچایا جا ئے ان کو مضبوط پلستر پر آراستہ کیا جائے ، محض غصہ دکھاکر دل ٹھنڈا نہیںہو ا کرتا بلکہ پلستر اکھڑنے کا سد باب ہو نا چاہیے ۔ ان تما م سے بڑھ کر تقریر کا وہ حصہ بہت حسا س ہے جس میں انھو ں نے یوکرائن کے حوالے سے یو رپی یو نین کونسل اور امریکا کا ذکر کیا اور استفسار کیا کہ پاکستان سے جو کہا جا تا ہے وہ بھارت سے کیو ں نہیں کہا جا تا ۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر لیا ان ممالک نے کیا کیا ۔گویا عوام نے وزیر اعظم کی تقریر سے یہ تاثرلیا کہ پا کستان عالمی طورپر تنہا ہو گیا ہے ۔اگر دنیا کشمیر کے معاملے پر پا کستا ن کے ساتھ کھڑی نہیںہوئی اس میں کس کی کمزوری ہے اگر پاکستان کے مقابلے میں یہ عالمی طاقتیں بھارت کے ساتھ اگر نظر آرہی ہیں تو یہ کیسی کمزوری ہے ۔اگر بھارت پر یورپی کونسل دباؤ نہیں ڈال رہی ہے تویہ بھارت کی کا میا بی ہے ۔ ادھر تو یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ امریکی صد ر ٹیلی فون نہیں کر رہا ، سوال وہی ہے کہ کیو ں ٹیلی فون نہیں کررہا ہے ۔وزارت خارجہ کو چاہیے کہ وہ وزیراعظم کو بریفنگ دے کہ عالمی صورت حال میں پاکستان کس پو زیشن پر کھڑ ا ہے اور کیو ں کھڑا ہے ۔کا میا بیوں ناکامیبوں کی وجوہات کیا ہیں ۔اسی طرح ملک کی اندرونی صورتحال پر غور خوص کی ضرورت ہے کہ ملک کی اندرونی صورت حال بھی مستحکم ہو نا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ سیا سی حالا ت میں بھی استحکا م کی بے پنا ہ ضرورت ہے ۔جہا نگیر ترین اورعلیم خان گروپ کے وجو د اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ پا رٹی میں استحکا م لرز گیا ہے ۔فوری طور پر پا رٹی میںپیدا ہو نے والی لر زش کو روکا جائے ۔جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلا ف تحریک مصطفٰے کے نا م پرتحریک چلی تھی اس وقت مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے پبلک میں آکر ایک خط لہرایاتھا کہ یہ دیکھو اپو زیشن نے ان کے خلا ف مدد کے لیے امریکی سفیر کو خط لکھاہے اس کے بعد سے امریکا کے خلا ف نعرے پی پی کے کارکنو ں کے لیے بڑے مقبول ہو گئے تھے ، عوام کو یہ تاثر دینے کی سعی نا کام کی گئی تھی کہ بھٹو مر حوم کی حکومت ختم کر نے کی مساعی میں امریکا کا ہا تھ ہے ۔ اس کے بعد کیا ہو ا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔ایک وقت ایسا آیا کہ بی بی بے نظیر بھٹو کو یہ کہنا پڑ ا کہ جو ان کے جلسے میں امریکا کے خلاف نعرے بازی کرے گا اس کاپی پی سے کوئی تعلق نہیں۔ایسا ہی کھیل اب پی ٹی آئی کی طر ف سے نظر آرہا ہے کہ شاید عمر ان خان کے روس کے دورے پر امریکا ناراض ہو گیا ہے جبکہ سفارتی سطح پر ایساسنگین معاملہ نہیں ہو تا چنا نچہ اس تاثر کو پھیلا نے کی وجہ سے ناقدین یہ کہہ رہے ہیں کہ سیا سی شہید بننے کی کو شش ہے ۔ تحریک عد م اعتما د کا توڑ سڑکو ں یا میدانوں کی رونق سے نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے لا زمی ہے کہ آئینی طریقے سے تو ڑ کیا جا ئے ۔یو رپی یو نین یا امریکا کے بارے میں مو صوف نے جن خیالات کا اظہا ر کیاہے اس میں سو چ کی با ت یہ ہے کہ پا کستان کی سب سے زیادہ تجا رت یورپی کو نسل کے ساتھ ہے کیا یہ طرز گفتگو اثر انداز نہیں ہوگی کیا ہما رے پا س کوئی متبادل ہے جس معاشی بھنور میںپاکستان گھن چکر بنا ہو اہے کیا اس میں مزید پھنس جانے کی استعد اد رکھتا ہے ۔سیاست سیاسی میدان میںجما ئی جا تی ہے اور سفارت سیا سی میدان میں بدائی جا تی ہے ۔اپنا اپنا ٹھور ٹھکا ناہوتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج