2 174

کرنے کا کام

وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر لاک ڈائون کے خاتمے کا عندیہ ضرور دیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ کورونا پھیلاتو دوبارہ لاک ڈائون کی طرف جانا پڑے گا۔ انہوں نے ٹائیگرفورس کی جو ذمہ داریاں بتائی ہیں وہ ازخود ایک متوازی انتظامیہ قائم کرنے کے مترادف ہے۔ رضاکاروں کا لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے متعلق آگاہی کے علاوہ ذخیرہ اندوزی کی نشاندہی کی بھی گنجائش ہے لیکن ٹائیگر فورس کو بیروزگار افراد کی رجسٹریشن کے عمل میں شریک کرنا سیاسی وانتظامی دونوں بنیادوں پر درست فیصلہ نہیں، اس سے تضادات اور الزامات کا ایک نیا سلسلہ جنم لے گا جو خود حکومتی ساکھ کیلئے مضر ثابت ہوگا۔ وزیراعظم نے کورونا وباء کے پھیلائوکے ابتدائی دنوں میں ٹائیگر رفورس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے اس کے ذریعے کورونا کا مقابلہ کرنے کا جو اعلان کیا تھا ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کا اعلان بغیر کسی حکمت عملی کے تھا، اس کے متحرک ہونے میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزرگیا اور اب جب اس کی ذمہ داریوں کا اعلان سامنے آیا تو یہ بات کھل گئی کہ اس سے اُمیدیں وابستہ کرنا خام خیالی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی خدمت کیلئے کسی فورس کی ضرورت نہیں، پاکستان تحریک انصاف کے عوامی نمائندے اور کارکن اپنی سطح پر عوام کی خدمت کر کے یہ مقصد بغیر کسی تضادات وتنقید کے بخوبی حاصل کر سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں فورسز کا تجربہ قبل ازیں بھی ہو چکا اور اس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے، رضاکاروں کی کسی بھی فورس کی مخالفت مقصود نہیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بھی اس قسم کے رضا کارموجود ہیں، رضاکار فورس کی قوت کا حالیہ مظاہرہ جے یو آئی(ف) اسلام آباد میں اجتماع کے موقع پر کر چکی ہے جس قسم کی وہ منظم فورس نظر آرہی تھی اس کے رضاکار خیبر پختونخوا میں اپنے علاقوں میں عوام کی خدمت اور عوام کو اس وباء سے بچائو کے اقدامات سمجھانے کرنے نکل آتے تو خیبرپختونخوا میں صورتحال مختلف ہوتی، بہرحال حکومت کے سخت ناقد اور مخالف جماعت سے اس کی توقع نہیں۔ حکمران جماعت کی سابق اتحادی جماعت اسلامی جو اب حکومت کی معتدل مخالفت کر رہی ہے، اس کے ایک رفاہی تنظیم الخدمت کی بے لوث خدمت کا اگر جائزہ لیا جائے تو ملک بھر میں بلاامتیاز وبلاتخصیص عوام کی خدمت رہنمائی، حفاظتی سپرے، حکومت کو الخدمت کے ہسپتالوں کا انتظام سونپنے کی پیشکش سے لیکر پیٹھ پر لاد کر اور کندھوں پر اُٹھا کر گھر گھر راشن پہنچانے کی جو خدمت الخدمت کے کارکنوں نے کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی، دیگر فلاحی تنظیموں کی خدمات بھی کم نہیں بے مثال ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اگر ملک کے عوام کی خدمت میں اپنے جماعتی کارکنوں اور رضاکاروں کا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو ٹائیگر فورس ہی کے نام سے چیتوں کی پھرتی کیساتھ عوام کی دستگیری اور امداد پہنچانے کا کام لیں، یہ صرف وزیراعظم ہی کو مشورہ نہیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اگر انتخابات میں عوام کی ناپسندیدہ اور کم ووٹ لینے والی محدود سیاسی جماعت ہی کی تقلید کریں تو ملک وقوم کی خدمت کے دعوے کی کچھ تو تصدیق ہوگی۔ ہمارا مقصد کسی سیاسی جماعت کی بے جا تحسین ہرگز نہیں، عملی طور پر انجام دینے والی خدمات کی مثال دینا اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اس کی ترغیب تحسین کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہم سمجھتے ہیں ٹائیگر فورس کو جو ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں اگر لاک ڈاؤن کے اتبدائی دنوں میں اس کے کارکن مارکیٹ، منڈی، مساجد اور محلوں میں لوگوں کو ترغیب دینے اور رہنمائی کیلئے موجود ہوتے تو اس کی گنجائش تھی، اب صورتحال یہ ہے کہ عوام اور کاروباری طبقہ لاک ڈاؤن کی عملی خلاف ورزی میں نہ صرف حکومت کے مدمقابل آچکے ہیں بلکہ حکومت کے اقدامات کو سرے سے خاطر میں نہیں لایا جارہا اور حکومتی مشینری زیادہ سے زیادہ شٹر گرا کر کاروبار کرنے والوں کیخلاف نیم دلانہ وناکام کارروائیوں ہی میں مصروف نظر آتی ہے۔ بازاروں اور سڑکوں پر لاک ڈاؤن اور عام دنوں کا فرق جب باقی نہیں تو حکومت کی طرف سے زبانی اعلان کی کیا وقعت رہ گئی ہے، اس کا فیصلہ حکومت خود کرے جب حکومتی مشینری ممکنہ سختی کے باوجود لاک ڈاؤن، عوامی مقامات پر حفاظتی اقدامات، مناسب فاصلہ رکھنے اور انتظامیہ مہنگائی وذخیرہ اندوزی کی روک تھام میں ناکام ہے ایسے میں رضاکاروں سے توقعات کی وابستگی عبث ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی اور قیمتوں میں اضافہ بارے آگاہی کیلئے کسی منظم تنظیم اور فورس کی ضرورت نہیں یہ سب کچھ نوشتہ دیوار ہے۔ عوام اور میڈیا چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں، اصل بات حکومتی مشینری کے تحرک اور عمل کی ہے جو مفقود ہے۔ ذخیرہ اندوزی کے ایک بہت بڑے سکینڈل کی پہلی رپورٹ وزیراعظم کے سامنے ہے، دوسری رپورٹ کی بھی آمد آمد ہے، آٹا چینی اور اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی ومہنگائی کوئی نئی بات نہیں، ان کیخلاف ٹھوس بنیادوں پر اقدامات ہونی چاہیئں۔ وزیراعظم لاک ڈاؤن کے سرکاری خاتمے یا اس میں مزید نرمی کا جو بھی اعلان کریں صوبوں سے مشاورت کریں یا نہ کریں ملک میں عملی طور پر لاک ڈاؤن کی صورتحال نہیں، حکومت کیلئے کورونا کے پھیلاؤ کی روک تھام کیلئے اس صورتحال میں کرنے کا کام حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے، اس پر حکومت ٹائیگر فورس وحکومتی مشینری سمیت جن جن ذرائع یہاں تک کہ حزب اختلاف کی جماعتوں اور عوامی نمائندوں جس جس سے تعاون حاصل کر کے عمل درآمد کرواسکتی ہے، ترغیب دے سکتی ہے اور سختی کرسکتی ہے وہ ضرور کرے علاوہ ازیں کے اقدامات محض تکلفات ہی ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب