1 278

کرے دریا نہ پل مسمار میرے

مسلمانوں کیخلاف نفرت وحقارت کے جذبات اُبھارنے والی غیرمسلم قوتوں کے سارے اندازے غلط ہورہے ہیں، محولہ قوتوں کے معاشروں میں اسلام مخالف جذبات اُبھارنے والوں کا بیانیہ ممکن ہے ان مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہو جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرکے شرمناک حرکتیں کی ہیں اور ابھی یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ کچھ اور ممالک بھی امریکہ اور دیگر قوتوں کے دباؤ میں آکر آنے والے دنوں میں اسرائیل کو تسلیم کرلیں، مگر عام مسلمان ابھی اتنا بے غیرت نہیں ہوا کہ ان حکمرانوں کی بے حسی سے متاثر ہو کر شعار اسلام کی بے حرمتی کو برداشت کرتے پھریں اور جب معاملہ پیغمبر آخرالزماںۖ کی ذات مبارکہ کا ہو، تو کوئی بھی مسلمان آپۖ کی بے حرمتی کو کسی بھی صورت قبول نہیں کر سکتا کہ بقول منیز نیازی
میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم محمدۖ شاد رکھتا ہے مجھے
فرانس کے صدر نے جس طرح توہین آمیز خاکوں کی نمائش کی حوصلہ افزائی کر کے مسلمانان عالم کے مذہبی جذبات کو مجروح ہی نہیں بری طرح پامال کیا ہے اس کیخلاف عالمی سطح پر خصوصاً مسلمان ملکوں کے اندر آگ لگی ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس صورتحال کا سخت نوٹس لیکر فرانسیسی صدر کے بیان کو جہالت پر مبنی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسے اسلاموفوبیا قرار دیکر کہا کہ صدر میکرون ایک خاص گروہ کو دیوار سے لگانے کی بجائے ان کے زخموں پر مرہم رکھتے، مگر افسوس انہوں نے اس کے برعکس کیا، یعنی اسلام کیخلاف نفرت کو ہوا دی۔ ادھر کوئٹہ میں گزشتہ روز اپوزیشن کے جلسے میں فرانس کیساتھ تعلقات فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا، ظاہر ہے سفیر سے موجودہ صورتحال پر احتجاج کیا جائے گا۔ دوسری جانب بعض عرب ممالک کے اندر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا گیا ہے جس سے یقینا فرانس کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے اس لئے کہ ان ممالک میں صرف مقامی طور پر ہی غیرملکی مصنوعات استعمال نہیں کی جاتیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں جو ہنرمند وہاں روزگار کی تلاش میں جاتے ہیں وہ بھی جب چھٹیوں پر اپنے ممالک جاتے ہیں تو ضرورت کی یہ اشیاء اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، ظاہر ہے صرف فرانسیسی نہیں دیگر غیرملکی مصنوعات کی کھپت بھی صرف مقامی سطح تک محدود نہیںہوتی اور یوں فرانسیسی مصنوعات پر پابندی لگنے سے فرانس اپنی ہیکڑی بھول سکتا ہے اور اس کے ہوش ٹھکانے آسکتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال دیگر اسلامی ممالک میں بھی پیدا ہو جائے تو فرانس کی معیشت تباہی سے دوچار ہوسکتی ہے جیسا کہ اوپر کے سطور میں گزارش کی گئی ہے کہ مغربی دنیا بلکہ کیا یہود کیا نصاریٰ اور کیا ہنود ایک عرصے سے جس غلط فہمی میں مبتلا ہیں اس کی وجوہات کو نظراندا نہیں کیا جا سکتا۔ ذرا پیچھے کے واقعات کو یاد کیجئے، بعض خلیجی ممالک میں بھارت سے پیار کی پینگیں اس طور بڑھائی گئیں کہ وہاں نہ صرف مندروں کے قیام کی اجازت دی گئی بلکہ ان مندروں کی افتتاحی تقاریب میں ”عرب شیوخ” نے تھالی میں پوجا کیلئے رکھی گئی اشیاء کو ہندوؤں کی طرح گھما کر شوق سے ہندؤوں کی پیروی کرتے ہوئے ویڈیوز بنانے اور عالمی سطح پر ان کو ذرائع ابلاغ پر نشر اور شائع کرنے پر بھی اعتراض نہیں کیا گویا وہ جو میر نے کہا تھا
میر کے دین ومذہب کا کیا پوچھتے ہو کہ ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
میر کے نام کو اگر تخلص کے برعکس لغوی معنوں میں لیا جائے تو ان خلیجی ریاستوں کے بعض سربراہوں یا اہم ترین افراد کے ”میر” ہونے کا لطف لیا جاسکتا ہے۔ دولت کے حرص وہوس میں مبتلا بعض مسلمان حکمرانوں کی جانب سے مندروں کی تعمیر کا مطلب خدانخواستہ ان ممالک کے عام مسلمانوں کے اندر سے بھی اسلام کی محبت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا بلکہ جب شعائر اسلام پر بات بن جائے تو ہر مسلمان کٹ مرنے کو تیار ہو جاتا ہے کہ بقول محشر بدایونی
کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے
مغربی دنیا میں گزشتہ کچھ عرصے سے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کا مکروہ کھیل رچایا جارہا ہے، دراصل اس کے پیچھے کئی مقاصد پوشیدہ ہیں، ایک تو ان ممالک میں مسلمانوں کیخلاف جذبات بھڑکا کر ان پر عرصہ حیات تنگ کرنا، شعائر اسلامی کی توہین سے ان کو برانگیخت کر کے انہیں تشدد پر اُکسانا اور یوں ان کا تعلق دہشت گردی سے جوڑ کر ان کیخلاف نفرت اُبھارنا مقصود ہے۔ یہ صورتحال کسی شخص کی انفرادی حرکت قرار دینا بھی ایک سوچی سمجھی سازش ہے جبکہ دراصل اس قسم کے اقدامات ان ممالک کے اندر مخصوص گروہ کے اجتماعی فکر کے پوشیدہ بیانیوں کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں اور اب تو فرانس کے صدر کے رویئے سے یہ بلی تھیلی سے باہر آچکی ہے جو دراصل بعض مسلمان ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد اُبھرا ہے مگر ابھی مسلمانوں میں اتنی بے غیرتی اور بے حسی عود کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی کہ وہ خاموش رہ کر اسلام دشمن قوتوں کو کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کریں۔
تو آں قاتل کہ ازبہر تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟