5 83

کشمیر ارطغرل کی تلاش میں

گزشتہ برس پانچ اگست کے فیصلے کے بعد جب بھارتی حکومت نے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز میں تبدیل کر دیا تو کشمیری عوام میں انتہائی افسردگی، پست ہمتی اور شدید منفی اثرات کا رحجان دیکھا گیا۔ ریاست کو پہلے ہی فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر کے عوام کو اس فیصلے کیخلاف اُف تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ شدید لاک ڈاؤن کے باوجود بعض مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے جس کو میڈیا میں آنے سے روکنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔ اس پر کشیدہ ماحول کے سبب ہر شخص اندرونی گھٹن محسوس کرنے لگا۔ کشمیر میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے وہی ڈرامے، خبریں اور تفریح کے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں جو بھارتی موقف کے طرف دار ہیں۔ بعض چینلوں سے نشر ہونے والے پاکستانی اور ترکی ڈراموں پر حکومت نے پابندی عائد کی ہے۔ ایسے میں جب لوگوں کو ترکی ڈرامے ارطغرل کے بارے میں پتہ چلا تو فورا اس کی ڈاؤن لوڈنگ شروع ہو گئی۔ اس کو دیکھنے سے انہیں ذرا سی راحت محسوس ہونے لگی اور ڈرامے میں اوگوز کائی قبیلے کی لمبی جدوجہد کو اپنی تحریک سے تشبیہ دینے لگے۔ سن اسی کے اوائل میں جب ہالی وڈ فلم عمر مختار کو کشمریوں نے سکرین پر دیکھا تو انہوں نے فورا عمر کا مسولینی فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہنے کو1931کی تحریک کے ان شہیدوں سے موازنہ کر دیا جس کی بنیاد پر بعد میں شیخ محمد عبداللہ نے ڈوگرہ مہاراجہ کیخلاف اپنی مہم شروع کی تھی۔ بعض شاہدین کے مطابق ڈوگرہ فوج کی گولی سے ہلاک ہونے والے پہلے شہید عبدالقدیر نے مرتے وقت شیخ عبداللہ کے کان میں کہا تھا کہ ‘تحریک کو آگے لے جانا اب آپ کی ذمہ داری ہے۔’ لیکن1947میں برصغیر کے بٹوارے کے بعد عوام کی خواہشات کے برعکس شیخ کے ہندوستان سے ناطہ جوڑنے کے فیصلے کیخلاف بیشتر کشمیری اپنے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ عمر مختار فلم دیکھ کر کشمیر میں یہ بحث ہر گھر میں چھڑ گئی کہ شیخ عبداللہ نے عمر مختار کی طرح موت کو ترجیح کیوں نہیں دی تاکہ کشمیری ان کے فیصلے کا عذاب صدیوں تک نہیں سہتے رہتے۔ اس فلم کے چند برس بعد ہی ریاست میں مسلح تحریک شروع ہوگئی تھی۔ ارطغرل ڈراما بیشتر کشمیری حلقوں میں آج کل موضوع بحث بنا ہوا ہے، خاص طور سے نوجوانوں میں۔ اس سیریز کی بدولت بیشتر لوگ اسلام کی تاریخ، ناکامیوں، کامابیوں اور فتوحات میں کافی دلچسپی لینے لگے ہیں۔ ایک سینئر صحافی کے مطابق ‘بھارتی حکومت نے ریاست میں مسلم کردار کو ختم کرنے کا ایک منظم منصوبہ شروع کیا ہے۔ ایسے دوسرے سخت اقدامات شروع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ کشمیر میں ریڈکلزم کی سوچ انتہائی گہری ہوچکی ہے مگر میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا کہ ان اقدامات کے ردعمل میں ہی عوام میں نہ صرف اسلامی تعلیمات کی جانب رحجان بڑھ گیا ہے بلکہ تحریک آزادی کو ترکی قبیلے کی لمبی جدوجہد سے جوڑ کر یہ عزم پختہ ہو گیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کی خاطر باطل کے سامنے صدیوں تک خاموش لڑائی لڑتے رہیں گے۔ کئی اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں میں یہ سوچ بہت مضبوط ہے۔ حکومت نے ان ہی خدشات کے پیش نظر انٹرنیٹ کی سہولت کو جان بوجھ کر محدود کر رکھا ہے تاکہ وہ اس طرح کے پروگراموں سے متحرک نہ ہو سکیں۔’
ترکی کا یہ ڈراما دراصل اس دور کی عکاسی کرتا ہے جو صلیبی جنگ کے خاتمے اور قیام سلطنت عثمانیہ کے بیچ کا وقت ہے۔ جب بارویں صدی میں صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو حاصل کرنے کا سوچا اور فوراً ان کے انتقال کے بعد مسلمان سیاسی انتشار کا شکار ہوگئے تھے۔ یہ صورتحال تقریباً پندرہویں صدی تک قائم رہی۔ اس دوران ترکی کے اوگوز قبائلی رہنماؤں نے مسلمانوں کو متحد کرنے اور دشمنوں کیخلاف صف آرا ہونے کی لمبی جدوجہد چلائی جن میں بقول ترکی مورخین ارطغرل اور بعد میں ان کے بیٹے عثمان پیش پیش رہے ہیں۔ بعض مورخین کے حوالے سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ عثمان کی فتوحات ہی عثمانیہ سلطنت کے قیام کی بنیاد بنی جو پھر600سال تک مسلمانوں کی متحد مرکزی قیادت رہی۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد1922میں عثمانیوں کی مملکتیں جو ایک بار پھر بیرونی، اندرونی اختلافات اور انتشار کی وجہ سے کمزور ہوچکی تھیں برطانیہ، روس، فرانس اور یونان نے آپس میں بانٹ کر سلطنت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا۔ اس کیساتھ ہی کمال اتاترک کے موجودہ ترکی کی بنیاد پڑی۔ ارطغرل سیریز پر یورپ اور امریکی میڈیا میں بھی کافی تبصرے کئے جا رہے ہیں بلکہ ایک جریدے نے یہاں تک کہہ دیا کہ ‘یہ ڈراما ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔’ جرمنی کی کیرن جودہ فشر جو امریکہ میں رہتی ہیں اور کئی برس تک کشمیر میں سماجی سدھار میں شامل رہیں کہتی ہیں کہ ‘کشمیری عسکری پسند ڈاکٹر منان وانی میں نہ صرف ارطغرل جیسا جوش اور جذبہ موجود تھا بلکہ مختلف نظریات رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی سوچ بھی تھی لیکن بھارتی فوج نے اس کی ہلاکت سے کشمیری تحریک کو بڑی ضرب لگائی۔’ کسے معلوم کہ کوئی نیا ارطغرل پیدا ہو یا نہیں مگر اس بات پر لوگوں کو یہ اطمینان ضرور حاصل ہوا ہے کہ کشمیری عوام کو انتہائی گھٹن کے اس ماحول میں تفریح کا ایک بہترین ذریعہ فراہم ہوا ہے کہ جس نے نہ صرف ان میں اپنے عقیدے کو مزید مضبوط کر دیا ہے بلکہ انہیں اپنے جائز حقوق کے حصول میں صبروتحمل برتنے کا نیا سبق ضرور ملا ہے۔
(بشکریہ انڈیپنڈنٹ)

مزید پڑھیں:  آبیل مجھے مار