کلیجہ ٹوک ٹوک کرے

وزیر اعظم عمر ان خان کو ذومعنی کلا م میںملکہ حاصل ہو چلا ہے جس کا خاص طور پر ان دنوں وہ خوب استعمال کر رہے ہیں ان کے ذومعنی خطابت کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیںحالیہ دنوں میں ان کی جانب سے غیر جا نبدار کی تعریف انھی ذومعنی انداز میں کی گئی اب انھو ں نے پمز اسلا م آبا دکی ایک تقریب میں اپنے خطاب میں میرٹ کی بھی تشریح اپنے مطا بق کر ڈالی اب تک میرٹ سے یہ مراد لی جا رہی تھی کہ جس کا سینارٹی کی بنیاد یا قابلیت کی بنیا د پر حق ہے اسی کو ملنا چاہیے مگر موصوف نے ایک اور گرہ اس میںلگا دی ہے کہ اہلیت کا ہو نا لازمی ہے جونیئر یا سینئر کے چکر میں پڑنا بو ڑم پن کے سوا کچھ نہیں ۔ خیر یہ الگ موضوع ہے اس کے لیے ابھی کا فی وقت پڑا ہے ملک کے تازہ حالات میں تحریک عدم اعتماد کی نو بت بج رہی ہے پو ری قوم اس الجھن پر پڑی ہو ئی ہے کہ ہو گا کیا ۔ کیو ں کہ اب تک لفاظی کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ تاہم اتنا ہے کہ ماضی میں ایسے مواقع پر سبھی کا رڈ چھپا کر رکھا کر تے تھے یہ ظاہر ہونے نہیں دیا کر تے تھے کہ کون کون شریک چھپن چھپا کھیل رہا ہے اس دفعہ تو اپو زیشن نے بڑے دھڑلے سے ہمقدم تحریک اعتما د کے چہر وں کی منہ دکھا ئی کر ادی ہے ۔ جس پر کئی لو گ بغلیں بجا نے لگے ہیں کہ اپو زیشن چال میں فول کھیل گئی ہے ۔ جب کہ حکومت نے اپنا سب کچھ پر دے میں رکھا ہو ا ہے ، جس کا اظہا ر وزیر اعظم نے عدالت اعظمیٰ کے مقدما ت کی رپو رٹنگ کرنے والے صحافیوں سے ملا قات میں کیا ۔ وزیراعظم نے بتایا کہ انھوں نے اپنے کا رڈ مخفی رکھے ہوئے ہیں اور وہ وقت آنے پر ایسی ترپ چال چلیں گے کہ یہ ان کی طر ف سے سرپرائز ہو گا ۔کہنے کا یہ بھی کہا گیا کہ اپو زیشن کے بیس ارکا ن تحریک کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے گویا اپو زیشن کے بیس ارکا ن کی وفاداریا ں پلٹا دی گئی ہیں یا پلٹ گئی ہیں بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ پارٹی سے وفاداری نہ نبھا نے پر ان کو تاحیات نااہل قرار دینے کی آئینی وضاحت کے لیے ایک طرف حکومت نے عدالت اعظمیٰ میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے تو دوسری جانب اپو زیشن کے مبینہ بیس ارکا ن کی وفاداریاں تبدیل ہو نے کی شاداں خبرپھوڑی جا رہی ہے ۔حیر ت ہے کہ ایک طرف حکومتی ارکا ن کا اپو زیشن کے سنگھی ہو جا نا حرام قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب خود ہی یہ نوید دی جارہی ہے کہ اپو زیشن کے بیس ارکا ن اور حکومت کا سنگھا ت ہو گیا ہے ۔ جس اعتما د کا اظہا ر حکومتی پارٹی کی طرف سے اظہار ہورہا ہے اگر ایسا ہی ہے تو کھیل کو لمبا کیو ں کیا جا رہا ہے حکومت اور اپو زیشن کی نفسیا تی کشمکش میں عوام ذہنی دباؤ کا شکا ر ہوتے جا رہے ہیں ۔ اس مر تبہ تو یہ شفافیت سامنے آئی ہے کہ جن پر بک جا نے کا الزام لگایا تھا انھوں نے قرآن عظیم جیسی کتاب کی قسم کھا کر تردید کر دی ہے جن میں جہا نگیر ترین گروپ کے راجہ ریا ض بھی شامل ہیں انھو ں نے بتایا کہ جب سندھ ہا ؤ س وہ تشریف لے گئے تھے تب حکومتی ارکان کی ایسی تعداد چوبیس تھی جو تحریک عدم اعتما د کے حامی تھے اب ان کی تعدا د بڑھ کر ستائیس ہو گئی ہے گویا دن دگنی رات چوگنی کرنیں بکھر رہی ہیں ۔خیر اب تک دیکھنے کو یہ ہی ملا ہے کہ حکومت کی طرف سے تاخیر ی حربے ہی استعمال ہوئے ہیں جیسا تاثر دیا جا رہا ہے اگر ایسا ہی ہوتا تو اسپیکر آئین پا کستان سے نہ کھیل جا تے ۔ یا پھر حکو مت کی جا نب سے ذومعنی جملے ہی سنائی دے رہے ہیں ۔ وزیر اعظم موصوف نے اپنے حالیہ ایک بیان میں فرما یا ہے کہ وہ پانچ ارب روپے خرچ کر کے ان سب کو خرید لیتے لیکن وہ شفافیت کے علمبر دا رہیں اس لیے ایسا نہیں کررہے ہیں ۔اس پر بھی اعتراض جڑا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نے پانچ ارب روپے کا عدد کیوں استعمال کیا اس سلسلے میں بھی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں ویسے اس پانچ ارب روپے کا کوئی نا تا یا رشتہ نکلتا نظر تو آرہا ہے یعنی جس روز وزیر اعظم نے پا نچ ارب روپو ں کا ذکر فرمایا تقریبا ً اسی روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خبر دے دی کے حکومت کے مطا بق اس کے اخراجا ت میں اضافہ ہو گیا ہے چنانچہ اس کو کرنسی کی اشد ضرورت ہے جس پر اسٹیٹ بینک نے تقریبا ًپانچ ارب سے کچھ زائدمالیت کے نو ٹ چھاپ کر حکومتی ضرورت کو پو را کردیا ہے ۔ نہ تو اسٹیٹ بینک اور نہ حکومت کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ حکومت کے کیا اخراجا ت بڑھ گئے جس کی وجہ اسٹیٹ بینک کو نوٹ چھاپنا پڑگئے ۔البتہ ان نوٹوں کی چھپائی سے پاکستان پر افراط زر کے کیا اثرات نمودار ہوں گے فی الحال تو امر یکی ڈالر ایک سو چوہتر روپے سے ایک سو بیا سی روپے فی ڈالر کی قدر پر آگیا ہے ۔اب فکر مندی یہ ہے کہ ڈالر کی اس اٹھان پر کیا ملک میں سونا می مہنگائی کے تھپیڑے عوام پر نہیں پڑیں گے ۔ غالباًوفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین جانتے ہو ں گے کہ افراط زر بھی مہنگائی کا طوفان کھڑا کردینے کا ایک عفریت ہے آخر وہ پڑھ لکھے ماہر معاشیا ت واقتصادیا ت ہیں ، جب سے انھوں نے خزانہ کی کنجی اپنی جیب میں ڈالی ہے تب سے وہ یہ ہی لو ری الاپ رہے ہیں کہ سب اچھا ہو گیا سب اچھا ہو رہا ہے ۔ نہیںبتاتے کہ یہ سب اچھا کس کے لیے ہوا ہے اور سب اچھاکیسے ہو رہا ہے ۔ عوام تو اب یہ ہی چاہتے ہیں کہ انتظار کی گھڑیو ں میں مزید ضعیف نہ کیا جا ئے جو حیرت ڈالنی ہے یا جو سرپرائز دینا ہے دے ڈالا جائے ۔بہت سرگردانی ہوگئی ہے لگتا ہے کہ ایک ما ہ ہو چلا ہے کہ گردش وقت تھم گئی ہے اور سب ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟