3 358

کمائی کا سیزن مگر کس کیلئے؟

تاجر برادری کے ہاں سیزن کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، سیزن ٹھیک طرح سے لگ گیا تو خوشحال’ نہ لگا تو بدحال۔ ویسے تو ہر کاروبار کیلئے مختلف طرح کے سیزن ہوتے ہیں لیکن ایک سیزن ایسا ہے جو تمام تاجروں کیلئے کمائی کا اہم ذریعہ ہے’ اس سیزن میں تاجر برادری سال بھر کی کمائی کرتی ہے۔ پوری دنیا کے مسلم ممالک میں جہاں رمضان کی آمد سے قبل ہی تیاری شروع ہو جاتی ہے وہیں پاکستان میں تاجر برادری ذخیرہ اندوزی میں مصروف عمل ہوتی ہے، تاکہ رمضان المبارک میں خوب سیزن کمایا جا سکے، یوں رمضان المبارک کی آمد کیساتھ ہی اشیاء خورد ونوش کی قیمتیں آسمانوں کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہیں۔ ماہ مقدس میں تاجروںکا یہ رویہ باعث شرم ہوتا ہے کہ جہاں پر ہر مسلمان اپنے تئیں کوشاں ہوتا ہے کہ وہ ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کما سکے وہیں تاجر برادری گراں فروشی میں مصروف ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ چاند رات تک جاری رہتا ہے’ عید ختم ہوتے ہی اشیاء کی قیمتیں پرانی روٹین پر آجاتی ہیں۔
رمضان المبارک میں صاحب ثروت احباب کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سرمائے کا بڑا حصہ اللہ کے نادار بندوں پر خرچ کریں’ اس مقصد کیلئے وہ اپنی تجوریوںکا منہ کھول دیتے ہیں’ یہ نیک طینت لوگ رمضان المبارک کا سال بھر انتظار کرتے ہیں’ مختلف مسلم ممالک میں سحر وافطار کے طویل ترین دسترخوان اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ہونے والی مہنگائی کا تعلق اور اس کی تمام تر ذمہ داری تاجروں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ رمضان میں مہنگائی کا تعلق کسی ایک پارٹی کیساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ماضی کی حکومتوں سے لیکر موجودہ حکومت تک ہر پارٹی اپنے تئیں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے، رمضان میں مختلف اشیاء بالخصوص اشیاء خورد ونوش پر سبسڈی دی جاتی ہے’ اسی طرح سستے بازاروں کو قائم کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو حتی المقدور ریلیف فراہم کیا جا سکے، جب یہ طے ہوگیا کہ رمضان المبارک میں ہونے والی مصنوعی مہنگائی کا تعلق تاجروں سے ہے تو بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تاجر برادری میں کوئی گروہ ایسا نہیں جو ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ببانگ دہل اعلان کرے کہ وہ رمضان المبارک میں بلاوجہ کی مہنگائی اور نرخ بڑھانے میں گراں فروشوں کا ساتھ نہیں دے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں قحط الرجال ہے’ خوف خدا کے حامل سینکڑوں تاجر موجود ہیں لیکن مافیا کی دیکھا دیکھی وہ بھی اس مکروہ کھیل کا نہ چاہتے ہوئے حصہ بن جاتے ہیں لیکن اگر یہ گروہ جرأت کرے اور ٹھان لے کہ وہ گراں فروشی کے مکروہ کھیل کا حصہ نہیں بنے گا تو یقین کیساتھ کہا جاسکتا ہے کہ گراں فروشوں کی دکان زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتی۔ زیادہ منافع کے لالچ اور گراں فروشی میں مصروف تاجروں کو سمجھنا چاہئے کہ یہ کمائی کا سیزن ہے لیکن دنیا کی کمائی کا نہیں بلکہ آخرت کی کمائی کا سیزن ہے، وہ تاجر جو اپنی تجارت خوف خدا کے سائے میں کرتا ہے، وہ قیامت کے دن نبیوں، شہیدوں، صدیقوں اور صالحین کیساتھ ہوگا، جس نے تجارت فریب، ڈاکہ، جھوٹ اور بے ایمانی سے کی تو وہ فاجر اور فاسق کیساتھ ہوگا۔
آج تاجروں نے ذخیرہ اندوزی کر کے کمائی کو ہی اصل کامیابی سمجھ لیا ہے حالانکہ رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیوں اور کورونا وائرس کی وجہ سے مشکلات کا شکار ضرورت مندوں کی حاجت روائی اصل کامیابی ہے اور یقیناً باقی رہنے والی ہے۔ نفع کے لالچ میں مہنگائی کرنے والے والے تاجروں کو جاننا چاہئے کہ ضرورت مندوں پر خرچ جہاں نیکیوں میں اضافہ کا باعث ہے اس کے ساتھ ہی مال میں برکت کا بھی ذریعہ ہے، اللہ کا فرمان ہے کہ ”جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے جو لوگ اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں ہو گی۔”اسی طرح تجارت میں عموماً دوسرے تاجروں کے ساتھ لین دین ہوتا ہے، کورونا کی وجہ سے چونکہ کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے تو کئی ایسے تاجر بھی ہوں گے جو دیگر تاجروں کے مقروض ہوں گے اگر ایسے حالات میں انہیں کچھ مہلت دے دی جائے تو یہ عمل خداوند کی خوشنودی کا ذریعہ بن سکتا ہے کیونکہ تنگدستوں کو مہلت دینے اور ان کے ساتھ صبر کا معاملہ کرنے کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن بڑا مقام ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے نوکروں سے کہہ دیتا کہ اس سے درگزر کر جاؤ۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے آخرت میں درگزر فرمائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مرنے کے بعد اس کو بخش دیا۔(بخاری و مسلم) ہم میں سے ہر کوئی اللہ کی خوشنودی اور بخشش کا طلب گار ہے لیکن ہم اس راستے پر چلنے کیلئے تیار نہیں ہیں جس راستے پر چل کر اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، مسلمان تاجر کی شان اللہ کے دیئے ہوئے میں سے اس کی راہ میں خرچ کرناہے نہ کہ موقع کا فائدہ اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے لوٹنا، اگر اس رمضان میں چند تاجر ہمت کر لیں تو گراں فروشی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ