کوشش کرنے میں کیا حرج ہے

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پاکستان اور افغانستان کے درمیان دراندازی کے مسئلے پر پیدا ہونے والی دوریوں کے خاتمے کی کوشش کے طورپر افغان حکام سے ملاقاتوں سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں اس لئے کہ قبل ازیں جید علمائے کرام کے وفد کے دورے کے نتائج بھی مثبت نہیںنکلے بلکہ صورتحال مزید ابتر ہو گئی تھی۔ واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کیساتھ تقریباًایک سال قبل مذاکرات کا سلسلہ معطل ہو گیاہے تاہم اطلاعات تھیں کہ بعض بیرونی قوتیں ثالثی کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرانے کیلئے دوبارہ سرگرم ہوگئی ہیں لیکن آر می چیف جنرل عاصم منیر کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیاگیا اور دفتر خارجہ نے پاکستان میں سرکاری اور سول تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد کو حوالہ کرنے کا مطالبہ کیاہے ۔دوسری جانب پاکستان سے غیر قانونی افغان باشندوں کے انخلاء پر بھی افغان حکومت کو تحفظات ہیں۔یہ سارے حالات اس امر پر دال ہیں کہ صورتحال سنگین اور پیچیدگی کا شکار ہے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات ٹی ٹی پی کی موجودگی سے پیدا شدہ پیچیدگیاں اور دوریاں و غلط فہمیاں ایسا پیچیدہ تکونی معاملہ ہے کہ ہر کونے کا زوایہ الگ اور بعد کی کیفیت ہے پاکستان اور افغانستان کی حکومتی سطح پر معاملات میں عملی کشیدگی غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کے بعد واضح نظر آتی ہے جبکہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے توکبھی دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کو سمجھنے کی سعی شاید کبھی کی گئی ہو مستزاد ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کی شرائط و موقف میں درمیانی ر اہ تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ایسے میں جے یوآئی کے سربراہ کے دورے سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا حقیقت پسندانہ امر نہ ہو گا اسکے باوجود اگر واقعی کوئی عملی پیشرفت نظرآئے اور خاص طور پرپاکستان میں دہشت گرد عناصر کے گروہ خاموشی ہی اختیار کر لیتے ہیں یہ بڑی کامیابی ہو گی لیکن جہاں ممکنہ طور پر وزیرستان میں موجود ایک گروپ کچھ مصالحت کی طرف مائل بتایا جاتا ہے وہاں باجوڑ میں پولیس پر حملے کا سنگین واقعہ اس کی عملی نفی اور جواب ہے ان حالات میں کوئی جزوی نتیجہ ہی سامنے آسکتا ہے کلی نہیں۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ