کڑی شرائط پر قرض کا حصول

وزیراعظم کی جانب سے مزید مشکل فیصلوں کے عندیے اور قومی املاک کو گروی رکھنے کے فیصلے کے بعد طویل مذاکرات کے نتیجے میں آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ میں 4 کھرب 36 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اور پیٹرولیم لیوی میں بتدریج اضافہ کرکے پانچ روپے ماہانہ سے پچاس روپے فی لیٹر تک پہنچانے کے وعدے کے بعد سمجھوتہ ممکن ہوسکا البتہ آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے منظوری کے بعد آئندہ ماہ تقریباً ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے سے قبل کچھ مزید شرائط پر عملدرآمد کرنا ضروری ہوگا حکومت نے ایک اور مشکل فیصلہ یہ کیا ہے کہ پندرہ کروڑ کمانے والی کمپنیوں پر ایک فیصد، بیس کروڑ پر دو فیصد، پچیس پر تین فیصد اور تیس کروڑ روپے سے زیادہ کمانے والی کمپنیوں پر چار فیصد غرب ٹیکس لگانے پر بھی اتفاق کیا ہے، علاوہ ازیں ٹیکس وصول کے اہداف پر نظرثانی اور دیگر کئی کڑی شرائط شامل ہیں آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد اس کی کڑی شرائط پوری کرنے کی تگ و دو میں مشکل حالات کا سامنا اب یقینی ہے البتہ غیر یقینی معاشی صورتحال کا باعث روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ اور اس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ اور روپے کو ڈالر میں تبدیل کرنے کا جو عمل جاری تھا اس فیصلے کے اس صورتحال پر پڑنے والے اثرات مثبت ہیں اس معاہدے کی ابتدائی اطلاع کے ساتھ ہی ڈالر کی قدر میں ایک اعشاریہ آٹھ فیصد کمی اور روپے کی قدر میں ایک روپے اسی پیسے کا اضافہ ہوا جب کہ غیر یقینی کی کیفیت اور بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے رقم بھجوانے کا جو سلسلہ روک رکھا تھا ڈالر کی قیمت میں کمی یقینی دیکھ کر اچانک گزشتہ روز اوورسیز پاکستانیوں نے پانچ کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی ریکارڈ رقم روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں جمع کرائی ان حالات میں توقع کی جاسکتی ہے کہ اب ملکی معیشت کا زاویہ بدل جائے گا اور جن معاملات اور فیصلوں میں حکومت بے بس دکھائی دے رہی تھی اس پر حکومت کی گرفت مضبوط ہوتی جائے گی لیکن دوسری جانب جو اہداف پورے کرنے ہوں گے ان کا حاصل کرنا حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا ان معاشی اہداف کیلئے حکومت کی ترجیح سخت مالیاتی فیصلے اور ان کے نفاذ پر توجہ ہو گی جب کہ آئی ایم ایف کی ہدایت اور شرائط پر عملدرآمد بھی بہتر معاشی نظم و ضبط ہی ہے جن پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ جہاں تک قرض کے حصول کا معاملہ ہے سیاسی طور پر ماضی میں بھی آئی ایم ایف سے حصول قرض اور قسط کے اجرا کو ہر حکومت اپنی کامیابی اور عوام کے لئے خوشخبری سے تعبیر کرتی آئی ہے حالانکہ یہ اگر زہر پینے کے مترادف نہیں تو کم از کم کڑوے گھونٹ کے مترادف ضرور ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد اب دوست ممالک سے بھی قرضوں کے حصول کی راہ ہموار ہوگی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا بھی باب کھلے گا ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کا خاتمہ ہوا تو عالمی منڈی تک رسائی و تجارتی خسارے میں کمی لانے کی راہ ہموار ہو گی لیکن اس میں وقت بہرحال لگے گا۔ جملہ حالات ایک طرف، سب سے حل طلب مسئلہ داخلی طور پر سیاسی استحکام اور سیاسی انتشار کا خاتمہ ہے جس سے نکلے بغیر یکسوئی نہ ہونا اپنی جگہ ان حالات میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا ممکن نہ ہوگا دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ چار پانچ سال سے سیاسی طور پر جس قسم کے انتشار کا شکار ہے وہ ملک سے نہ صرف غیر ملکی بلکہ ملکی سرمایہ کاروں کے بھی سرمائے کے فرار کا باعث بنا غیر یقنی حالات کے باعث سرمایہ کاری منجمد ہوگئی ہے یا پھر سرمایہ کاروں کو نیپال میں سرمایہ کاری محفوظ لگی اگر دیکھا جائے تو حاضر وقت سیاسی اور حکومت امور ٹھپ پڑے ہیں صدر مملکت آئینی ذمہ داریوں سے احتراز کی پالیسی لئے ایوان صدر میں روٹھ کر براجمان ہے جب کہ خیرپختونخوا اور سندھ و بلوچستان میں گورنروں کی تقرری کا معاملہ ہنوز التواء کا شکار ہے سب سے بڑے صوبے میں سیاسی بحران حل ہونے کا نام نہیں لے رہا خیبرپختونخوا اور مرکزی حکومت کے درمیان تعلقات کی نوعیت تاریخ کی خراب ترین سطح پر ہے آئے روز احتجاج اور دھرنوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ایسے حالات میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ اور ٹیکس اہداف کے حصول کی سبیل نظر نہیں آتی حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے مل بیٹھنے کی ضرورت ہے ایسے میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے وہ کب سنایا جاتا ہے اس سے بھی سیاسی ارتعاش میں مزید تیزی کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں:  الٹے بانس بریلی کو ؟