کہاں تک بتائیں

کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگربات وہی ہے کہ کہا ں تک سنو گے کہاں تک بتائیں ، ان دنو ں گفتگو کے لیے ڈھیر سارا مو اد پایا جا تا ہے سب کا احاطہ کرنا کالم کے بس کی بات نہیں ہے چلیں سب سے پہلے اہم بات یہ پڑھ لیں کہ عمر ان خان نے بریگیڈئر (ر)مصدق عباسی کو احتساب اور داخلہ امو ر کا مشیر مقرر کردیا ہے ۔ مصدق عباسی کی تقرری کے بارے میں گزشتہ گفتگو میں ذکر کردیا گیا تھا ، گفتگو میں ایسے درجنوں انکشافات ہو چکے ہیں مگر عزیزی نے کبھی تحسین سے نہیں نو از ا ۔ مصدق عباسی پہلے بھی نیب میں رہے ہیں اور صوبہ کے پی کے کے ڈائریکڑ جنرل کے عہد ے پر کا م کر چکے ہیں بعد ازاں نیب کے سربراہ ایڈ مر ل سلیم بخاری بڑے بڑے اسکیندل کھنگالنے کے لیے اسپیشل آپریشن ونگ قائم کیا تواس کا سربراہ مصدق عباسی کو مقرر کیا گیا تھا نیب کے سربراہ کا خیال تھاکہ وہ سات پشتوں تک کو کھنگال ڈالنے کی صلا حیت رکھتے ہیں ، نیب سے فارغ ہوکر بریگیڈئیر صاحب دوریشی کی طرف راغب ہو چلے ، وہ عباسیہ ویلفیر ٹرسٹ یا فاؤنڈیشن کے نا م سے ایک رفاحی ادارہ بھی چلا رہے ہیں ایک اسکول کے بھی سرپرست ہیں ۔ وہ روحانیت کی طرف بھی مائل ہو گئے ہیں ۔شہزاد اکبر کا جا نشین تلاش کر نے کے لیے وزیر اعظم نے تین افراد کا انٹرویو کیا تھا ان میں سے ایک ممتاز وکیل تھے دوسرے نیب کے سابق ڈائریکڑ جنرل کے عہد ے پر کا م کر نے والے اصغر حسین تھے دونو ں نے حکومتی خواہش کے مطابق کا م کر نے سے انکا ر کر دیا جس کے بعد بریگیڈیر (ر) مصدق عباسی کا انتخاب عمل میں آیا ، یہاں ایک دلچسپ بات یا د آرہی ہے کہ جب نو از شریف ، مریم او ر ان کے دیگر اہل خانہ پھر اسحاق ڈار کے خلا ف ریفرنس پا ناما کے فیصلے کے بعد جو بنایا گیا ، اس میں نیب نے خو د شہا دتیں جمع نہیں کیں بلکہ جے آئی ٹی کی رپو رٹس پر انحصار کرکے مقدمہ بنا دیا تھا ، اس وقت مصدق عباسی صاحب نے ریفرنس پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ نیب صیحیح نہیں کر رہی ہے اس میں تیکنکی خامیا ں ہیں ۔مصدق عباسی ایک سلجھے ذہن کے مالک ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مشکل دور میں ان کی کیا کا رکر دگی رہتی ہے ، کا رکردگی میں عمر کا تقاضا بھی ملحوظ خاطر رہتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک بری خبر یا تشویش ناک خبر یہ ملی ہے کہ اسلا م آبا د ہائی کو رٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ شدید علیل ہو گئے ہیں ، اطہر من اللہ وکلا ء تحریک کا بھی حصہ رہے ہیں بحثیت جج انھو ں نے خاص طور پر جو مثالی فیصلے دئیے ہیںوہ تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں ان فیصلو ں پر ہر طرف سے تحسین ملی ہے ۔ ا ن کے اس طرح اچانک بیما ر ہو نے کی وجہ سے عوام میں خدشات کا جنم لینا قدرتی عمل ہے ۔ کیوں کہ ایسے منصفو ں کی یکایک بیماری سے ذہن خود بخود پشاور ہائی کو رٹ کے چیف جسٹس سیٹھ وقار کی طر ف اٹھ جا تا ہے ۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ کے قریبی ذرائع نے ان کی بیما ری کے بارے میں آگاہ کیا ہے تاہم ایسی شخصیات کے بارے میں ان کے ادارے کو چاہیے کہ وہ کسی ابہا م کو پیدا ہو نے روکنے کے لیے اس بارے میں عوام کو آگاہی دیں تاکہ صحیح طور پر معلو م ہو سکے کہ کیا بیما ری ہے اور صحت کی تازہ صورت حال کیا ہے ۔جب جسٹس فائز عیسیٰ بیما ر ہوئے تھے تو اس وقت بھی تشو یش پید ا ہوئی تھی ، اہل پاکستان ان کی جلد صحت یابی کی دعا کر یں ۔ وزیر اعظم عمر ان خان کی ٹیلیفونک رابطہ عوام مجلس میں بھی یہ سوال اٹھا یا گیا تھا وزیر اعظم نے سوال کا جواب تو گول کر دیا تھا تاہم دیگر موضوعات کو خوب کرید ڈالا ، اے این پی کی طرف سے باچا خان کی یا د میں منعقدہ ریفرنس میں کئی مقررین نے بھی صدارتی نظا م کے بارے میںاظہا ر خیا ل کیا اور ا س کو ملک کے لیے غیر مو زوں قرار دیا ۔ اس مو قع پر ایک مقر ر نے خان عبدالو لی خان کا فاطمہ جناح کا ساتھ دینے کا ذکر کیا ، تو بہت سی باتیں ذہن میں تازہ ہوگئیں ۔ ما در ملت فاطمہ جنا ح صدارتی امید وار کی حثیت سے ایو ب خان کے مقابل کھڑی ہوگئیں تھیں اور کئی سیا سی جماعتوں نے محترمہ فاطمہ جنا ح کا ساتھ دیا تھا ان میں کا لعدم نیپ بھی شامل تھی جس کے سربراہ خان عبدالولی خان تھے ان کے اور ان کی پا رٹی کے بارے میں جمہور دشمن عنا صر اس وقت بھی غدار کا نعرہ لگایا کر تے تھے ۔جب کہ سب ایک آمر کے ساتھ کھڑے تھے اور خان عبدالولی خان خالق پا کستان قائد اعظم کی ہمشیر ہ فاطمہ جنا ح کے مددگا ر بنے ہوئے تھے ۔ان باتوں سے ہٹ کر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ جو تجا ویز سامنے آئیں ہیں اس کے مطابق پہلی بات تو یہ ہے کہ جمہو ری پارلیما نی نظام کو آئین نے بنیا دی طور پر تحفظ دیا ہے جس میںاب کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی دوم یہ کہ صدر کا انتخاب ون میں ون ووٹ (آبادی ) کی بنیاد پر ہو گا پنجا ب کی آبادی ملک کی آبادی کا پچپن فی صد سے زائد ہے چنا نچہ ہر مر تبہ صدر پنجا ب سے منتخب ہو نے کا قوی امکا ن پا یا جا تا ہے ۔ جبکہ پارلیما نی نظام میں وزیر اعظم پا رلیما ن میں پارٹی اکژیت کی بنیا د پر منتخب ہو تا ہے اور وہ کسی بھی صوبے سے آسکتا ہے ۔ جیساکہ بھٹومر حوم ، بے نظیر مرحومہ ، محمد خان جونجو ، ظفر اللہ جمالی ، نو از شریف ۔ آصف رضا گیلا نی وغیر ہ ، صدارتی نظام کی بدولت ملک کی وفاقی اکائیو ں میں غلط فہمی پیدا ہو نے کے امکا تا ت بہت زیا دہ ہیں جیسا کہ ماضی میں مشرقی پاکستان کے عوام میں پیدا ہوئے چنا نچہ کسی طور صدارتی نظام پاکستان کے لیے مو زوں قرار نہیں پا تا ۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟