کہیں انڈیا آئوٹ تو کہیں اِن(ii)

ہر پڑوسی انڈیا سے ناراض ہے دوسری جانب انڈین ریاست مغربی بنگال میں برسر اقتدار ترنمامول کانگریس کے رکن پارلیمان جواہر سرکار نے بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے بنگلہ دیش میں جاری مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ہر پڑوسی انڈیا سے ناراض ہے۔ پاکستان دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، چین نواز نیپال انڈین غنڈہ گردی سے نفرت کرتا ہے، لنکا کو تملوں اور باسزم کی وجہ سے (انڈیا کے ساتھ) مسائل ہیں، مالدیپ نے ہمیں لات مار کر باہر نکال دیا، بھوٹان چین کی طرف جھک رہا ہے، اور اب بنگلہ دیش میں انڈیا آئوٹ تحریک سرگرم ہے۔واشنگٹن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی مشفق الفضل انصاری نے اس بابت امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھو میلر سے ایک سوال پوچھا۔ مشفق انصاری نے پوچھا کہ بنگلہ دیش میں انڈیا آوٹ کی مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔ لوگ انڈین مصنوعات کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کر رہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ انڈیا پس پردہ شیخ حسینہ کو اقتدار میں برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ آپ ان حالات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟اس کے جواب میں میتھو میلر نے کہا: ہمارے پاس اس مہم کی رپورٹس ہیں، لیکن ہم کسی صارف کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے، چاہے وہ بنگلہ دیش میں ہو یا دنیا کے کسی اور حصے میں۔ لیکن ہم بنگلہ دیش اور انڈیا دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی قدر کرتے ہیں اور ہم دونوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ کام کرتے رہیں گے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ساتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھاردواج سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ مالدیپ کی انڈیا آٹ مہم سے بنگلہ دیش کی انڈیا آٹ مہم کا تقابل نہیں کیا جا سکتا۔پروفیسر سنجے کہتے ہیں کہ مالدیپ ایک چھوٹا ملک ہے اور وہ پوری طرح سے ایک سنی اکثریتی خطہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش بہت بڑا ہے جہاں ہندو آبادی بھی کافی ہے۔ انھوں نے کہا مالدیپ کے صدر محمد معیزو کو اپنے سے مقابلے میں آنے والی جماعت کے اندرونی اختلافات کا بھی فائدہ پہنچے جبکہ دوسری جانب چین مالدیپ میں تقریبا ایک دہائی سے سرگرم ہے۔انھوں نے کہا کہ صدر معیزو بھی انڈیا کے معاملے میں حساس ہیں چنانچہ جب ان کے ایک وزیر نے انڈیا مخالف بیان دیا تھا تو انھوں نے اس کا سختی سے نوٹس لیا تھا۔بی بی سی کی یہ رپورٹ جنوبی ایشیا کی سیاست میں بھارت کی بالادستی کے خلاف پیدا ہونے والے عوامی رجحان کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے اور ایسے میں پاکستان کو اس عوامی رجحان کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ یکطرفہ اورخود سپردگی کے انداز میں تعلقات کی بحالی اور تجارت پر مجبور کرنا خود پاکستان کی داخلی سیاست اور حالات کیلئے اچھا شگون نہیں کیونکہ پاکستانی عوام معاشی طور پر مجبور اور حالات سے عاجز ہونے کے باوجود بھارت کے ساتھ عزت اور وقار کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں اور کشمیر جیسے معاملات تو پاکستان کی داخلی سیاست اور پاک بھارت تعلقات کا ایک ایسا برمودہ تکون ہیں جس میں بڑی اور مقبول حکومتوں اور شخصیات کے ٹائی ٹینک غائب ہوتے رہے ہیں۔پروفیسر سنجے بھاردواج نے کہا کہ جہاں تک بنگلہ دیش کا سوال ہے تو یہ تین طرف سے زمین سے انڈیا سے گھرا ہے جبکہ چوتھی طرف خلیج بنگال ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ روایت رہی ہے اور دونوں طرف بنگالی بولنے والی برادریاں رہتی ہیں جس میں ہندو مسلم دونوں شامل ہیں۔ ان کے درمیان شادی بیاہ کے رشتے ہیں اور مشترک تہذیبی اقدار ہیں۔ ان کا ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش کا انحصار انڈیا پر اس قدر ہے کہ کلکتہ میں شاپنگ کیے بغیر تو انھیں عید میں بھی مزہ نہیں آتا ہے۔ان کے مطابق معیشت کے معاملے میں انڈیا بنگلہ دیش پر منحصر ہے تو بنگلہ دیش سکیورٹی اور سیاسی استحکام کے معاملے پر انڈیا پر بہت انحصار کرتا ہے۔پرفیسر سنجے نے کہا کہ اگر انڈین مصنوعات کا بنگلہ دیش میں بائیکاٹ کیا گیا تو مہنگائی بہت زیادہ بڑھے گی، کچن کے مصالحوں سے لے کر ادویات تک پر بنگلہ دیش کا انڈیا پر انحصار ہے۔ یہاں تک کہ پیاز، لہسن، ناریل تیل، خوردنی تیل سب انھیں انڈیا سے فراہم ہوتا ہے۔ یہ صرف کپڑے کے بائیکاٹ کی بات نہیں کہ کام چل جائے یہ ان کے لیے زیست کا مسئلہ ہے اور ان کا انڈیا پر بہت زیادہ انحصار ہے۔مسٹر بھاردواج کے مطابق اگرچہ بنگلہ دیش تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہے اور وہاں چین اور جاپان کے اشتراک میں انفراسٹرکچر کے ترقیاتی منصوبے اور کام ہو رہے ہیں لیکن ان کے لیے پتھر سے لے کر بجری تک سب انڈیا سے جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ وہ (اپوزیشن) اپنا احیا چاہتے ہیں، لیکن یہ ان کے لیے بیک فائر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ سابق وزیر اعظم اور بی این پی کی رہنما خالدہ ضیا کے بڑے بیٹے طارق رحمان اس پارٹی کو لندن سے چلا رہے ہیں اور زمینی سطح پر ان کی موجودگی بہت کمزور ہو چکی ہے.اور ابھی سامنے کوئی انتخابات بھی نہیں ہیں، اس لیے اس کا انھیں خاطر خواہ کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ابھی بظاہر اس مہم کا مقصد سیاسی بنیادوں پر حکومت کو، معیشت کو اور ملک کو غیر مستحکم کرنا لگتا ہے۔انھوں نے کہا کہ چین کا تو بنگلہ دیش میں پہلے سے ہی عمل دخل ہے، لیکن یہ مالدیپ کی طرح کام نہیں کرے گا۔یاد رہے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان 4100 کلومیٹر کی سرحد ہے اور ان کے درمیان گہرے تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات ہیں۔ اس لیے ایک مستحکم، خوشحال اور دوستانہ بنگلہ دیش انڈیا کے مفاد میں ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کی حکومت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا نظر آ رہا ہے اور یہ کہ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں اس کا سب سے قریبی اور مضبوط اتحادی ہے۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش