madebenjamen

کیوبا میں احتجاج

بدترین اقتصادی حالات اور کوویڈ 19 کیسز میں اضافے کے سبب 11جولائی کے اختتامی ہفتہ کو کیوبا کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے جو کہ گزشتہ تین دہائیوں میں کیوبا میں ہونے والے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے قرار دیے جا رہے ہیں اور مبصرین کے مطابق آئندہ ہفتوں میں بھی یہ احتجاجی مظاہرے جاری رہ سکتا ہے، ان مظاہروں کی ابتداء 2020کے آخر میں ہوانا میں فنکاروں کے مظاہروں کی طرح ہوئی جو جزیرے کے بہت سے حصوں میں پھیل گئے تھے، لیکن ان مظاہروں کو مغربی پریس اور کیوبا نژاد امریکیوں نے پچھلے 60سالوں میں کیوبا کی حکومت کے زوال کی ابتداء سے تعبیر کرنے کی پیش گوئی کہا ہے،نیو یارک ٹائمز جیسے میڈیا ہائوس نے مظاہروں میں سینکٹروں جبکہ رائٹرز نے اپنی رپورٹس میں ان مظاہروں میں ہزاروں افراد کی شرکت کا حوالہ دیا ہے، کیوبا کی کل آبادی 11ملین افراد پر مشتمل ہے،پچھلے کچھ سالوں میں کولمبیا ، ہیٹی ، چلی ، ایکواڈور اور لاطینی امریکی ممالک یہاں تک کہ پورٹ لینڈ ، اوریگون ، یا فرگوسن ، مسوری پر بھی ہلچل مچانے والی بڑے پیمانے پر متحرک تنظیموں کی طرف سے احتجاج کے تناظر اور ریاستی جبر کیخلاف شاذو نادر ہی مظاہرے ہوئے ہیں، مزید یہ کہ امریکی میڈیا نے ان مظاہروں کے خلاف نکلنے والے مظاہرین کو نظر انداز کیا ہے ، جو دراصل حکومت اور کیوبا میں انقلاب کی حمایت کے لئے سڑکوں پر نکلے، کیوبا کے صدر میگوئل داز کینل نے ہوانا کی گلیوں میں احتجای مظاہرین کے خلاف جلسے کی قیادت کرتے ہوئے حکومت مخالف مظاہروں کو کیوبا کے عوامی اتحاد میں دڑاڑ ڈالنے کے مترادف قرار دیاگیا ہے،ان مظاہروں کو امریکہ کی جانب سے پچھلے 60برسوں سے جزیرہ نما خطے پر عائد پابندیوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ،جس باعث وہاں معاشی حالات تنزلی کا شکار رہے ہیں،امریکی نائب اسسٹنٹ سکریٹری برائے خارجہ نے سن 1960میں واضح طور پر کیوبا کو امداد اور رسد سے انکار کیا جو کیوبا میںمعاشی ابتری اور اجرت میں کمی لانے ، بھوک و افلاس کا سبب بنا اور اس امریکی فیصلے کا بنیادی مقصد اس وقت کی کیوبن حکومت کا تختہ الٹنا تھا اور حکومتی رجیم میں بتدیلی لانا تھا،یہ حکمت عملی کئی دہائیوں سے کیوبن اقتدار پر براجمان جماعت اور قیادت میں تبدیلی کا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ، اور اب بھی اس کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے،اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت کیوبا کو بہت سخت حالات کا سامنا ہے، ملک کو بجلی کی کمی کے باعث کئی بار ” بلیک آئوٹ” کا سامنا کرنا پڑاہے ، ساتھ ہی ساتھ ا دویات ، خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات کی بھی قلت ہے، گو کہ خوراک کی قلت کے سبب قحط کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی لیکن لوگوں کو اشیائے خوردو نوش کی بڑھتی قیمتوں اور خریداری کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے جس سے ان کو خوراک کی فراوانی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں ،کیوبا میں صحت کے شعبے میں یہاں تک کہ بنیادی دوائیں اور سرنج جیسے عام طبی اشیاء کا حصول مشکل ہو رہاہے،مزید برآں کوویڈ 19میں خاص طور پر متانزاس شہر میں کورونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ،تقریبا11ملین افراد پر مشتمل ملک کیوبا میں کوویڈ 19کے مریضوں کی تعداد000 240،اور1537 ہلاکتیں ہوئیں ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں اتنی ہی آبادی والے اوہائیو میں کورونا کے 1.1ملین کیسز اور 20ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں، خوراک کی قلت کے باوجود کیوبا کی صحت کی پالیسیوں نے اتنی بڑی آبادی کو وبائی بیماری کے شدید اثرات سے بچایا ہے، فی ملین آبادی میں کووڈ سے 139اموات کے ساتھ کیوبانے صحت کے شعبے میں زبردست نتائج حاصل کئے ہیں اس کے مقابلے میں امریکہ میں کووڈ 19سے فی ملین آبادی کے تناس سے1871 اموات ہوئیں،مزید یہ کہ کیوبا کی بنائی گئی کووڈ کی پانچ مختلف ویکسین میں سے دو ویکسین کی اقسام ملک میںکورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے میں کامیاب ثابت ہوئی ہیں او مقامی طور پر تیار شدہ ویکسین کو 20لاکھ سے زائد افراد کو لگایا جا چکا ہے ،کیوبا میں حکومت مخالف اور تبدیلی کے حامی اپنی حکومت پر کووڈ 19 سے نمٹنے کیلئے حکومتی پالیسوں کو نا کافی قرار دے کر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، یہاں تک کہ امریکی حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے وائٹ ہائوس ترجمان نے بھی کیوبا کے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عوام کی آواز سنے اور ان کی ضروریات کو پورا کرے بجائے صرف حکومتی شخصیات کی ضروریات پوری کرنے کے ،یہ واضح نہیں ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا واضح اشارہ کیوبن حکومت کے کن افراد کی طرف ہے لیکن ایسی یک طرفہ تنقید جس میں امریکہ حکومت کی کیوبا پر عائد پابندیوں پر عالمی برادری کی تنقیدکا کوئی ذکر نہیں سے کیوبا کی مشکلات کا مداوا ممکن نہیں، کیونکہ کیوبا اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔
( بشکریہ، دی نیوز،ترجمہ: واجد اقبال)

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے