1 236

کیوں تمہاری آنکھوں میں آنسوؤں کی رم جھم ہو

انصاف؟ کونسا انصاف؟ کیا متاثرہ خاتون کو اس کی تارتار عزت لوٹائی جاسکتی ہے؟ ریاست مدینہ کے حکمران نے تو یہ اعلان کر کے مظلوموں کی دادرسی کا معیار مقرر کیا تھا کہ اگر مدینہ منورہ سے سینکڑوں میل دور ایک دریا کے کنارے رات کو ایک کتا بھی بھوکا سو جائے تو قیامت کے روز جواب دینا پڑے گا، یہاں تو روزانہ جانے کتنے انسان بھوکے سو جاتے ہیں، مستزاد یہ کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کیساتھ زیادتی اور انہیں قتل کرنے کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور درندے ایک خاتون کی گاڑی کے شیشے توڑ کر اس کیساتھ زبردستی خود اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کرتے ہیں، مگر بیان آتا ہے خاتون کو انصاف دلایا جائے گا؟ انصاف، مائی فٹ’ اس کی عزت تو تارتار ہوچکی، اب کیا انصاف؟ اس پر اوپر سے یہ غیرذمہ دارانہ بیان کہ خاتون رات کو دو بجے اکیلی (بغیر مرد کے) کیوں گھر سے نکلی؟ سبحان اللہ، اگر انصاف دلانے کا یہی معیار ہے تو ہو چکا انصاف، جس ملک میں دن دیہاڑے ایک بااثر شخص بیچ چوراہے کے ایک پولیس اہلکار کو اپنی گاڑی سے کچل کر قانون کی نظروں میں بے گناہ ٹھہرے وہاں انصاف کے معیار پر تبصرہ کرنا ہی فضول ہے کہ بقول نسیم اے لیہ
توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا
بے ساختہ سرکار ہنسی آگئی مجھ کو
نئی ریاست مدینہ میں انسانوں کی بے توقیری انتہا پر ہے تو کتے کی فکر کسے ہوسکتی ہے، اس کا واضح ثبوت پشاور کا چڑیا گھر ہے جہاں جانوروں سے ہونے والے سلوک کی خبروں سے کلیجہ کٹ جاتا ہے اور سوال اُٹھتا ہے کہ اگر بے زبان جانوروں کی درست اور ان کیلئے قدرت کی جانب سے فراہم کئے جانے والے ماحول کی فراہمی ممکن نہیں تو چڑیا گھر میں بے بس جانوروں کو بلاوجہ قید کر کے اذیت میں مبتلا کرنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ کیا حدیث میں آیا ہے کہ انسانوں کی تفریح طبع کیلئے جانوروں کیلئے چڑیا گھر کے نام پر عذاب مسلسل کا بندوبست کیا جائے؟ ہادی برحقۖ نے بھی تو جانوروں پر رحم کا حکم دیا تھا، سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات کہاں سو رہا ہے جس کا کام ہی حیوانوں کیساتھ ناروا سلوک پر جاگنا ہے؟ جانے دیجئے، جہاں انسانوں کیساتھ جانوروں والا سلوک ہورہا ہو اوپر سے دعوے ریاست مدینہ کے کئے جارہے ہوں، جہاں کے واحقداران خود ایک پیج پر نہ ہوں، جب شہزاد اکبر فرما رہے ہوں کہ سی سی پی او کے بیان کا غلط مطلب لیا گیا ہے، مگر دوسری طرف ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ یہ کہے کہ سی سی پی او نے انتہائی غیرذمہ دارانہ بیان دیا گویا بقول شاعر
عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں
تضاد بیانی کے ہنگام انصاف کی توقع کس سے اور کیونکر کی جا سکتی ہے، وہ جو غالباً ٹالٹائی کی کہانی ہے (اگر بھول چوک ہوگئی ہو تو معذرت) جس میں ایک بے گناہ شخص کو قتل میں بیس سال کی سزا ہو جاتی ہے اور سزا کے ختم ہونے کے قریب اصل قاتل گرفتار کر لیا جاتا ہے، تو بے گناہ شخص عدالت سے استفسار کرتا ہے، مائی لارڈ آپ نے اتنی مدت بعد بے گناہ قرار دیتے ہوئے مجھے باعزت بری کر نے کا حکم صادر کر دیا مگر مجھے اپنی جوانی کے وہ بیس قیمتی سال کون لوٹائے گا جو بغیر کسی جرم کے میں نے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے گزار دئیے، اس کہانی پر دنیا بھر میں کئی فلمیں بنیں، پاکستان میں بھی ایک فلم بنی تھی جس میں بے گناہ قیدی کا کردار مرحوم محمد علی نے ادا کیا تھا اور آخری منظر میں اپنی گرجدار آواز میں مکالمے بولتے ہوئے تماشائیوں کو جس طرح رلایا تھا وہ محمد علی ہی کے فن کا کمال تھا، بہرحال فلم کا کیا مذکور کہ ایک بے گناہ کو بیس سال کے بعد اگرچہ اس داغ سے تو چھٹکارا مل ہی گیا تھا جو اس کے ماتھے کا داغ بن کر اس کے ضمیر پر بوجھ بنا تھا اور اس کی جوانی کے بیس سال کھانے کا باعث بنا تھا مگر یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ متاثرہ خاتون مظلوم اور بے گناہ ہوتے ہوئے بھی اپنی عزت پر لگنے والے داغ کیساتھ تادم مرگ زندہ رہنے پر مجبور ہوگی، اس کی قید تو اس کیساتھ ہونے والی زیادتی کے بعد شروع ہوچکی ہے جو سوتے جاگتے اس کے ضمیر پر ہتھوڑے برساتی رہے گی۔ اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟ وہ اپنے عزیزوں رشتہ داروں کا سامنا کرتے ہوئے کس ذہنی خلجان سے دوچار ہوگی، بے گناہ ہوتے ہوئے بھی وہ خود کو گنہگار تصور کر کے کس کرب سے گزرے گی اور تو اور وہ اپنے ان بچوں اور بچے اس کا سامنا کرتے ہوئے کن کیفیات کا سامنا کریں گے؟ اوپر سے سی سی پی او کے نمک آلود الفاظ اس کے زخمی دل پر کس قسم کے چرکے لگائیں گے، اس کا احساس کسی اور کو کیونکر ہوسکتا ہے۔ کیا ریاست مدینہ میں قانون کے رکھوالوں کا یہی رویہ تھا جس کی مثال دے دیکر (بصد احترام) اصل ریاست مدینہ کو بدنام کیا جارہا ہے، متاثرہ خاتون سے تعزیت کی جائے یا اس صبر کی تلقین کی جائے، یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں تو اپنا ہی ایک شعر بطور دعا ہی اس کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں
تیرے دل کے آنگن میں کیوں غموں کے بادل ہوں
کیوں تمہاری آنکھوں میں آنسوؤں کی رم جھم ہو

مزید پڑھیں:  مزید کون سا شعبہ رہ گیا ہے ؟