گئی یہ بھی گھڑی تجھ عمر سے اور تو نہیں چیتا

پنڈولم ایک جگہ ٹک کر نہیں رکتا ‘ اور ہر ٹک ٹک کے ساتھ ایک جانب سے دوسری جانب آجا کر وقت گزرنے کا احساس دلاتا رہتا ہے ‘ درمیان میں آکر تب بے حرکت ہوتا ہے جب اس میں چابی ختم ہوجاتی ہے ‘ اس صورتحال کو ایک قدیم دور کے شعرمیں کس خوبصورتی سے واضح کیاگیا تھا
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
ہمارا سیاسی نظام بھی بالکل پنڈولم کی طرح کا رویہ رکھتا ہے ‘ یہ کبھی ایک جانب جھکتا ہے ‘ کبھی دوسری جانب ‘ نئے نئے نظریئے جنم لیتے ہیں اورعوام ان کے پیچھے دوڑتے ہیں بالکل ٹرک کی بتی کی مانند جس کی کوئی خاص منزل نہیں ہوتی کبھی ایک راستے پر تواگلے ہی لمحے یا تو کسی اور سمت مڑ جانے کی وجہ سے اس ٹرک کی بتی بھی اسی اور دوڑتی ہے او رکبھی یو ٹرن لیتے ہوئے جن راستوں سے گزرنے کا کشت ٹرک نے اٹھا رکھا ہوتا ہے انہی پر بتی بھی واپس مڑ کر دوڑتی رہتی ہے ‘ عوام اس کے پیچھے پیچھے بھاگ کر گزشتہ پون صدی سے ہلکان ہو رہے ہیں مگر یہ ٹرک کی بتی کسی ایک جگہ ٹک جائے تبھی تو منزل سے ہمکنار ہوں ۔ بقول استاد دامن
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں
ایہو سوچدے سوچدے گزر گئی اے
بات گھڑیال کی ہو رہی تھی جو صدیوں بلکہ ہزاروں لاکھوں برس سے ‘ جب دنیا میں گھڑیال اپنی موجودہ شکل میں ایجاد بھی نہیں ہوا تھا ‘ اسی ٹک ٹک کرتے ہوئے حضرت انسان کو اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہاہے ‘ زمانے گزر گئے ‘ گزرتے چلے گئے اور گزرتے رہیں گے تاوقت یہ کہ عمر کا پنڈولم ساکت نہ ہوجائے تاریخ کے اوراق میں کئی ایسے واقعات درج ہیں جن سے اگر ہم سیکھنا چاہیں تو بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مگر سیانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ تاریخ کاالمیہ یہ ہے کہ اس سے انسان بھی نہیں سیکھتا اور جن واقعات سے سیکھ کر ہم اپنے آنے والے دور اور اپنی نسلوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں ‘ ان کو ہم نے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے لاتعداد واقعات میں سے ایک واقعہ ہمیں اپنے موجودہ حالات کے ساتھ تھوڑا سا مماثلت کرتا دکھائی دیتا ہے ‘ یعنی بقول میر محمد شاکر ناجی
بلند آواز سے گھڑیال کہتا ہے کہ اے غافل
گئی یہ بھی گھڑی تجھ عمر سے اور تو نہیں چیتا
غالباً بغداد میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب غیر ضروری اور فروعی اختلافات اس قدرابھر آئے تھے کہ علمی بحث کے نام پر فضول یا وہ گوئی میں عوام الجھ گئی تھی ‘ چھوٹی چھوٹی بات پربحث مباحثے ہوتے ‘ مناظرے منعقد ہوتے اور ا ختلافات پرقتل مقاتلوں تک کی نوبت آتی ‘ کہیں مبینہ طور پراس بات پر دو گروہ الجھ جاتے کہ سوئی کے ناکے سے فرشتے گزر سکتے ہیں یا نہیں ‘ کوا حلال ہے یاحرام وغیرہ وغیرہ ‘ دوسری جانب منگول یرغمال کرنے کی تیاری کر رہے تھے اور جب معاملات حد سے گزر گئے تو تاتاریوں نے حملہ کرکے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ‘ قتل عام سے بغداد کی سڑکیں اور گلیاں خون سے اٹ گئیں ‘ لوگوں کوجان بچانے میں جن مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ تاریخ کا ایک خونین باب ہے ‘ اس تباہی اور بربادی کے ذمہ دار اس دور کے وہ علمائے دین ‘ دانشور اور حکمران تھے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی یا تو خاموش تھے یا ان حالات سے کوئی تعرض نہیں رکھتے تھے اور حالات بے قابو ہوتے ہوئے معاشرے کے اندر تقسیم در تقسیم کا باعث بنتے چلے گئے ‘ شاید اسی حوالے سے کسی نے کہا ہے کہ
اٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں میں
وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں
فتنہ پروری کے سانپ ایک بارپھر ہماری آستینوں میں پلتے دکھائی دے رہے ہیں ‘ انہیں ہم ہی نے دودھ پلا پلا کر ان کی پرداخت کی ہے ‘ بغداد کی تاریخ اپنے آپ کو دوہراتے ہوئے صاف دکھائی دے رہی ہے مگر مصلحت کے ناگ پھنکارتے ہوئے ہمارے اہل دانش کو اس قدر خوفزدہ کر چکے ہیں کہ سب کچھ کھلی آنکھ سے دیکھتے ہوئے بھی کسی کو لب کھولنے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے ‘ ہمارے دشمن قدیم بغداد کے دور کے تاتاریوں کی طرح ہماری اس معاشرتی شکست وریخت پرگہری نظریں جمائے ان لمحات کے انتظار میں ہیں جب ہمارے فروعی اختلافات بھی مزید گہرے ہو کر معاشرے کی تباہی اور بربادی کے نقطہ انتشار کی آخری حدوں کو چھو رہے ہوں گے ‘ اس کے بعد(خدانخواستہ) کسی بھاری ضرب کی بھی ضرورت نہیں رہے گی ‘ بلکہ ایک معمولی ضرب اس منزل سے ہمیں آشنا کردے گی جس کے بعد اتحاد و اتفاق کے تاروپود بکھر کر ہمیں(اللہ نہ کرے) داستان عبرت بنا کر دنیا کے سامنے لاکھڑا کردیں گے ۔
تمیز رہبرورہزن ابھی نہیں ممکن
ذرا ٹھہر کہ بلاکاغبار راہ میں ہے
گھڑیال کی ٹک ٹک لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جارہی ہے ‘ اور جدید دور کے گھڑیال پرانے دور کے ان اذکار رفتہ گھڑیالوں کی مانند بھی نہیں ہیں جنہیں رواں دواں رکھنے کے لئے ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ چابی دی جاتی تھی ‘ اب تو کمپیوٹرائزڈ گھڑیال آچکے ہیں جن کو بیٹری سیل کے ذریعے سالوں تک رواں دواں رکھا جاسکتا ہے ‘ اوراب بیٹری سیل کی مدت کابھی کوئی مسئلہ نہیں سالہا سال تک یہ سیل کارآمد ہوتے ہیں اس لئے ان کے رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بس یہ ہمیں خواب غفلت سے جگانے کیلئے مسلسل ٹک ٹک کر رہے ہیں ‘ یہ صدا ہم نہ سن سکیں توقصور ہمارا ہی ہوگا۔
کارحیات ‘ ریشمی دھاگوں کاکھیل تھا
الجھے تو پھر سلجھ نہ سکے تار زیست کے

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟