پشاور یونیورسٹی کیمپس قتل

گارڈزکے ہاتھوں دوسرے قتل نے کئی سوالات کھڑے کردیئے

ویب ڈیسک: پشاور یونیورسٹی کیمپس میں دو ہفتوں میں سکیورٹی گارڈز نے دو افراد کی جان لے لی کیمپس میں موجود سینکڑوں پولیس اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود دو افراد کے دن دیہاڑے قتل اور بعد ازاں قاتل کے آسانی سے فرار ہونے سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے یونیورسٹی کیمپس کی حدود میں 19فروری اتوار کے روز اسلامیہ کالج میں انگریزی کے لیکچرار بشیر احمد کو سکیورٹی گارڈ نے قتل کیا جبکہ 5 مارچ اتوار کے روز پشاور یونیورسٹی سکیورٹی انچارج ثقلین بنگش بھی سکیورٹی گارڈ کی گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئے دونوں کے قاتل گرفتار کر لئے گئے ہیں تاہم دونوں کے قاتل آسانی سے قتل کرنے کے بعد کیمپس سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے تھے
پشاور یونیورسٹی کیمپس میں موجود پولیس اہلکاروں کی تعداد کے حوالے سے ترجمان پشاور یونیورسٹی محمد نعمان نے لاعلمی کا اظہار کیا اور مشرق ٹی وی کے پروگرام سنٹر پوائنٹ میں کہا کہ پشاور یونیورسٹی کی سکیورٹی کیلئے نجی سکیورٹی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں سکیورٹی انچارج کے قتل کے معاملے پر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اپنی رپورٹ جمع کرائے گی اسی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائیگا پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد عزیر نے سنٹر پوائنٹ میں کہا کہ یہ دو قتل نہیں ہیں بلکہ ہزاروں طلباء و طالبات اور اساتذہ کی جانوں کو لاحق خطرات ہیں جو سامنے آ گئے ہیں آج کیمپس میں موجود اساتذہ کو کہا جاتا ہے کہ وہ خود اپنی سکیورٹی یقینی بنائیں کیمپس میں صرف 500 اساتذہ ہیں انتظامیہ مزید بھرتی نہیں کر رہی اور ایڈ ہاک بنیادوں پر کام چلا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق پشاور یونیورسٹی کیمپس کی سکیورٹی نجی فرم کے حوالے کی گئی ہے جو سکیورٹی گارڈز کو من مانی تنخواہ ادا کرتی ہے جو کم سے کم اجرت پر بھی پورا نہیں اترتی جبکہ سکیورٹی کمپنی کی جانب سے تعینات اہلکاروں کی تربیت اور صحت پر بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے اب عدم اعتماد ظاہر کر دیا ہے۔ پشاور یونیورسٹی میں سینکڑوں میں پولیس اہلکار موجود ہیں جنہیں یونیورسٹی بجٹ سے ادائیگی کی جاتی ہے انہیں رہائش بھی یونیورسٹی کی جانب سے فراہم کی گئی ہے تاہم یونیورسٹی کی سکیورٹی صورتحال انتہائی مخدوش ہے پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے کیمپس میں طالبات کی ہراسگی، موبائل سنیچنگ اور گھروں میں چوری کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافے پر بھی خدشات ظاہر کئے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پشاور، بشام واقعہ کے بعد این سی پی گاڑیوں کیخلاف گرینڈ آپریشن کا فیصلہ