گردش ایام اور میرا آبائی شہر

آبائی شہر اور اس میں اپنی جنم بھومی بھی عجیب چیزیں ہوتی ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے خمیر میں انسیت رکھی ہے لہٰذا جہاں پیدا ہو کر پھلتا بڑھتا ہے۔ اسے وہاں کی ہر چیز سے ایک فطری انسیت و لگائو پیدا ہو جاتا ہے اور پھر اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کتنا ہی دور چلا جائے اور کتنا ہی بلند و بالا وارفع مقام پر پہنچ جائے اس کے دل میں یہ خواہش اور طلب پیدا ہوتی رہتی ہے کہ ان گلیوں ،چوباروں اور کھیت کھلیانوں کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کریں جہاں انہوں نے کبھی آنکھیں کھولی تھیں جہاں وہ بچہ اور پھر لڑکا بن کر پرائمری اور ہائی سکولوں میں پڑھ کر آگے بڑھا تھا۔ بعض اوقات اگرچہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ تعلیم اور پھر روز گار کے سلسلے میں اپنے آبائی گائوں سے جب نکل جاتا ہے تو بوجوہ اکا دکا مواقع کے علاوہ واپس آنے کے مواقع بہت کم نکلتے ہیں لیکن جہاں بھی وہ ہوتے ہیں کبھی کبھی لمحات فرصت میں ماضی کی یادیں اُسے اس انداز میں ستانے لگتی ہیں کہ بقول شاعر
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظ میرا
دراصل دیہاتوں سے شہروں میں جا کر آباد ہونے والوں کی مجبوریوں سے تجاہل عازمانہ برتا جاتا ہے۔ اور یوں بہت قریبی اور اپنے لوگوں میں بداعتمادی اور بدگمانیاں سی چلتی رہتی ہیں۔حالانکہ ایسا کون ہو سکتا ہے جس کو اپنی جنم بھومی سے محبت و عقیدت نہ ہو ۔
سوک پہ رضا دملکرنہ زی
یا ڈیر غریب شی یار دیاردتاوہ زینہ
مجھے بذات خود اپنے بوتکے بوتکے گھر گائوں سے نکلے چالیس برس ہوگئے ہیں اور جب کبھی وہاں جانے کا موقع مسیر آتا ہے تو اس کے باوجود کہ وہاں زندگی بہت سخت ہے کہ نہ بجلی میسر ہے نہ پینے کا صاف پانی تو دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں اور دل چاہتا ہے کہ اُن تمام مقامات وجگہوں کی زیارت وسیر کی جائے جہاں ہم لڑکپن اور جوانی میں گزرے تھے۔
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہا سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
پچھلے دنوں چالیس برس بعد پہلی دفعہ دو ہفتے مسلسل اپنے آبائی شہر کرک اور جنم بھومی میٹھا خیل میں رہنے کا خوشگوار موقع میسر آیا ،یار دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ دسمبر کی لمبی راتوں میں دیر تک چولہے (بخارئی )کے اردگرد بیٹھ کر آگ سینکتے ہوئے ایرانیوں کی رسم ”شب یلدا” کی یاد تازہ کر دی
”شب یلدا” میں ایرانی لوگ ماضی کے خوشگوار یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔
آبائی شہر کرک کو پھلتے پھولتے، الجھتے سلجھتے دیکھ کر غم خوشی کا ملا جلا احساس ہوا، کسی زمانے میں کرک کے دیہات و مضافات پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتے تھے، دسمبر سے اپریل تک سردی کے مہینوں میں بہت کم اہل کرک کو گندم کی روٹی میسر ہوا کرتی تھی، روزگار کا بڑا وسیلہ پاک افواج اور فرنٹیئر کانسٹبلری و ملیشاء وغیرہ میں ملازمت ہوتا تھا۔
لیکن محمد اسلم خان خٹک کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، عجب دور اندیش مرد تھا، انڈس ہائی وے کو کرک کے سینے پر سے گزار کر اہل علاقہ کے لئے روزگار کے وسیع مواقع گھروں کی دہلیز تک لانے کا وسیلہ کر کے گئے، آج الحمدللہ! ضلع کرک میں کوئی بھوکا نہیں سوتا، تیل گیس کی رائیلٹی سے یہاں کرامات رونما ہو سکتی ہیں، لیکن کیا کریں کہ کرک بھی تو وطن عزیز کا حصہ ہی ہے، اب جبکہ کرک شہر میں تبدیل ہوا چاہتا ہے، لیکن اہل قیادت کے فقدان کے سبب اس علاقے کے بنیادی مسائل اب بھی اپنی جگہ پر منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔
کسی زمانے میں کرک پاکستان کا پر امن ترین علاقہ ہوتا تھا، یہاں ایک ہی قبیلہ، خٹک اور ایک ہی مسلک حنفی کا راج تھا، جس کے نتیجے میں یہاں زندگی بہت سیدھی سادی اور پر امن گزرتی تھی، لیکن اب صوبہ بھر سے تجارت کی غرض سے مختلف علاقوں کے افراد آباد ہونے لگے ہیں۔
کرک کے بنیادی مسائل میں سے سب سے اہم مسئلہ تعلیم ہے، کہنے کو تو یہاں سکولوں، کالجوں اور تعلیمی اداروں کی کمی نہیں، خوشحال خان خٹک یونیورسٹی بھی موجود ہے، لیکن یہاں کی پسماندگی کے سبب صوبے کے دیگر شہروں، پشاور ،کوہاٹ ، ایبٹ آباد، مردان وغیرہ کی طرح ماہرین تعلیم اور سپیشلسٹ اساتذہ کی کمی کے سبب وہ معیار تعلیم میسر نہیں جو شہروں کی ترقی کیلئے ضروری ہوتا ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہاں کے معدنیات اور اس کی رائیلٹی کا ہے، رائیلٹی کا صاف و شفاف میزانیہ مفقود اور یہاں کے سیاسی زعما و رہنما ایک دوسرے پر بس تنقید ہی کرتے رہتے ہیں، تیسرا مسئلہ ہسپتالوں اور صحت کا ہے، اگرچہ صحت کارڈ نے غریب عوام کو بہت سہارا دیا ہے لیکن اس کے بدلے میں یہاں صحت کے کمزور انفراسٹرکچر کے سبب صحت کی معیاری سہولیات اور اعلیٰ ادویات کا شدید فقدان ہے، علاقہ کے عوام نمکین اور دیگرارسنیک وزر قونیم جیسے معدنیات کے اثرات مملو پانی کے استعمال پر مجبور ہیں۔
کرک شہر کے مین بازار کے بڑی دو رویہ سڑک کے دونوں طرف کوڑا کرکٹ اور گندگی ڈھیر کے ڈھیر دیکھ یہاں کی انتظامیہ کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکا کہ آخر اسی سڑک پر روزانہ نہ سہی ہفتہ میں ایک بار تو گزرنا ہو گا، لیکن مجال ہے کہ ان کے کانوں پر کہیں جوں رینگتی ہو، سنا ہے کہ پچھلے دنوں ایک پرائیویٹ چینل والوں نے میونسپلٹی اور دیگر ذمہ داران کو غیرت دلانے کیلئے سڑک کی صفائی کرائی، لیکن تابہ کہ؟ کہ آخر یہ کام تو ان کا ہے جو ضلع کے حاکم ہیں، صاحب بہادر ہیں، سیاہ و سفید کے مالک ہیں، لیکن وطن عزیز میں تو کب کی رسم چلی ہے کہ
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں۔ چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے۔ نظر چرا کے چلے، جسم وجاں بچا کے چلے

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟