گردوں والا گائوں

”گردوں والا گائوں ”جہاں غربت کے مارے افراد گردے فروخت کرتے ہیں

بے روزگار اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کوشاں، نورالدین کے پاس اپنا ایک گردہ بیچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ نور الدین کا شمار ان ہزاروں افغان شہریوں میں ہوتا ہے، جو اپنے جسمانی اعضاء بیچنے پر مجبور ہیں۔ یہ رویہ مغربی افغان شہر ہرات میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ شہر کی ایک نواحی بستی کو گردوں والا گائوں کا نام دے دیا گیا ہے۔ ایران کے ساتھ قومی سرحد کے قریب واقع شہر ہرات کے رہائشی نورالدین کا کہنا ہے مجھے یہ اپنے بچوں کی خاطر کرنا پڑا۔ میرے پاس اور کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔ نورالدین کا کہنا ہے مجھے اب ایسا کرنے پر افسوس ہے۔ میں اب مزید کام نہیں کر سکتا, میں درد میں ہوں اور کوئی بھاری چیز بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اس کا خاندان اب آمدنی کے لیے اپنے 12 سالہ بیٹے پر انحصار کرتا ہے، جو روزانہ جوتے پالش کر کے 70 امریکی سینٹ کے برابر رقم کماتا ہے۔ مزار شریف کے ایک ہسپتال کے سابق سرجن پروفیسر محمد وکیل متین کا کہنا ہے افغانستان میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس کے ذریعے یہ سلسلہ کنٹرول کیا جائے۔ محمد بصیر عثمانی ان دو ہسپتالوں میں سے ایک میں سرجن ہیں جہاں ہرات کے گردوں کی پیوند کاری کے زیادہ تر آپریشن کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ ہم گردے فروخت کرنے والوں سے تحریری رضامندی اور ایک ویڈیو ریکارڈنگ بھی لیتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں یہاں گردوں کی پیوند کاری کے ہزاروں آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ پیسوں کے لیے بے تاب افغان شہری اس عمل میں ملوث سہولت کاروں سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ سہولت کار ان افغان شہریوں کو امیر مریضوں سے ملواتے ہیں جو دور دراز علاقوں بعض اوقات بھارت یا پاکستان سے بھی گردوں کے ٹرانسپلانٹ آپریشن کروانے کے لیے ہرات آتے ہیں۔ ہرات کے اس گائوں میں ایک ایسا خاندان بھی ہے جس کے پانچ بھائیوں نے پچھلے چار سال میں اپنا ایک ایک گردہ بیچ دیا۔

مزید پڑھیں:  لکی مروت :قومی جرگہ کے رکن ادریس خان کی گاڑی پر فائرنگ