گرما گرم خبریں اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم

موضوعات بڑے گرما گرم ہیں پیپلز پارٹی کا عوامی لانگ مارچ صوبہ پنجاب کے سرائیکی وسیب کہلانے والے حصے میں داخل ہوچکا سندھ پنجاب سرحد پر کچھ رکاوٹوں کی وجہ سے تلخی بھی ہوئی اس تلخی کے ذمہ دار رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ہیں جن کے حکم پر بلاوجہ کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں دوسری گرم خبر اگلے دودنوں میں تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان والی ہے مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں ہمارے پاس مطلوبہ تعداد موجود ہے خزاں ختم ہونے والی ہے تیسری گرم خبر نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز شریف کی لیک ہونے والی ایک آڈیو ہے جس میں انہوں نے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے بارے میں گالی کے زمرے میں آنے والے الفاظ استعمال کئے ان تین گرما گرم خبروں کے بیچوں بیچ گزشتہ روز بتایا گیا کہ وفاقی کابینہ نے5 فیصد ادائیگی پر کالا دھن سفید کرنے کے لئے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے آرڈیننس کی منظوری دے دی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کالادھن سفید کرنے والے ”سرمایہ کار” ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے نئی کمپنی بنانے کے پابند ہوں گے۔ ہماری دانست میں سرکولیشن کے ذریعے ایمنسٹی سکیم کی منظوری دینے سے زیادہ مناسب ہوتا کہ وفاقی کابینہ کے باضابطہ اجلاس میں اس پر تفصیل کے ساتھ بحث کی جاتی ایسا کیا جانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ فیٹف کی تلوار پہلے ہی لٹک رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم ملک میں صنعت کاری کے فروغ کے لئے بہتر رہے گی۔ یہ بات بذات خود اس لئے حیران کن ہے کہ بنیادی طور پر زرعی معیشت کے حامل ملک میں ریڑھ کی ہڈی (زراعت) کو بچانے کے لئے کوئی حکمت عملی ہے نہ طویل المدتی منصوبہ، اس پہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سبزیوں، گندم اور ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے سے ترقی نہیں ہوسکتی۔ وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ وہ ان خیالات کے اظہار سے قبل کم از کم پچھلے بیس برسوں کے دوران ہوئی برآمدات کا تقابلی جائزہ ہی لے لیتے تاکہ وہ یہ جان پاتے کہ کن لوگوں نے کمال مہارت سے زرعی شعبہ کو برباد کیا وہ ملک جو قبل ازیں مقامی کاٹن پر تیار ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات سے اربوں ڈالر کماتا تھا پچھلے آٹھ نو برسوں سے کپاس کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے۔ زرعی معیشت کا حامل ملک گندم میں خودکفیل ہونے کے دعوئوں کے باوجود لاکھوں ٹن گندم ہر سال درآمد کرنے پر کیوں مجبور ہے۔ یہ بذات خود سوال ہے۔ اس سوال کے ساتھ اگر گزشتہ برسوں میں سامنے آنے والے گندم اور آٹا سکینڈلز کو بھی شامل کر لیں تو جواب سمجھانے میں آسانی رہے گی محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہمہ جہتی ترقی ضروری ہے۔ کیا وزیراعظم اور ہمارے پالیسی ساز اس امر سے لاعلم ہیں کہ دنیا میں بعض ملک صرف پھولوں کی برآمد سے اربوں ڈالر سالانہ کماتے ہیں؟ہم اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ صنعتی ترقی کے نام پر ملک میں اولین مارشل لا کے وقت سے اپنے اصل زراعت کو نظرانداز کرکے جس پالیسی کو ہم سینے سے لگائے ہوئے ہیں اس میں کتنی کامیابی ہوئی اور ناکامی کا تناسب کیا رہا اس پر بھی غور کرنے کی زحمت کبھی نہیں کی گئی حالانکہ اس کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت تھی یا پھر یوں کہہ لیجے کہ اگر کم از کم پچھلے تین ادوار میں ہوئی صنعتوں کی نجکاری کی وجوہات کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو پالیسی کو بہتر بنانے کے لئے رہنمائی ہوسکتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ عرض کرنا پڑرہا ہے کہ صنعتی ترقی کے عمل میں شرکت کا یہاں کوئی بھی مخالف نہیں ہمیشہ توجہ اس امر کی طرف دلائی جاتی رہی ہے کہ زراعت کا شعبہ ہمارا اصل ہے۔ کہاں ہم صرف کاٹن سے 10ارب ڈالر سے زیادہ سالانہ کماتے تھے اور کہاں اب سالانہ7سے8ارب ڈالر کی کاٹن خریدتے ہیں۔ یہ ایک مثال اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ کس طرح زرعی معیشت کو برباد کیا گیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج کی طرح ماضی کی حکومتوں میں دیہی علاقوں سے منتخب ہوکر آنے والے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں مگر کیا مجال کہ ان نمائندوں نے کبھی زراعت کو درپیش مسائل پر بات کی ہو یا یہ سوال ہی کیا ہو کہ آخر زراعت دوست پالیسی بنانے میں امر مانع کیا ہے ؟ اسی طرح کیا کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی کی گئی کہ پچھلے کم از کم تین ادوارمیں جو صنعتیں فروخت(نجکاری)کی گئیں وہ مرد بیمار کیوں قرار پائیں۔ زیادہ توجہ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر دی جانی چاہیے مگر یہاں حالت یہ ہے کہ قابل کاشت اراضی پر نئی ہائوسنگ سوسائٹیاں بنانے کی اجازت دیتے وقت دو باتیں کبھی مدنظر نہیں رکھی گئیں اولا قابل کاشت رقبے میں کمی اور ثانیا ماحولیات کا متاثر ہونا۔ سیینکڑوں ہزاروں ایکڑ رقبوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنانے سے بہتر تھا کہ ان سوسائٹیوں کو کثیرالمنزلہ رہائشی عمارات بنانے پر متوجہ کیا جاتا اور لوگوں میں بھی اس حوالے سے شعور پیدا کیا جاتا۔ ہم مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ازبس ضروری سمجھتے ہیں کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے آرڈیننس کے لئے صدارتی فرمان حاصل کرنے سے قبل ایک بار پھراس کے فائدے نقصان کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھ لیا جائے۔ فیٹف کا ہمارے تعمیراتی سیکٹر میں کالے دھن کی سرمایہ کاری پر اعتراض موجود ہے۔ حکومت قبل ازیں اقدامات کی یقین دہانی کرواچکی ہے ایسے میں صنعتی عمل کے لئے ٹیکس ایمنٹسی سکیم کہیں نیا تنازع نہ کھڑا کرے۔ ارباب حکومت کو اس امر کی بھی وضاحت کرنی چاہیے کہ تواتر کے ساتھ وہ پوشیدہ اثاثوں کو منی لانڈرنگ کا نام دیتے رہے ہیں موجودہ حالات میں ان کے ہی پرانے موقف کی بنیاد پر ٹیکس ایمنسٹی سکیم پر سوالات و اعتراضات ہوئے تو جواب کیا ہوگا؟ ہماری دانست میں زرعی اور صنعتی عمل ہر دو کی ترقی اور استحکام کے لئے اوورسیز پاکستانیوں کو متوجہ کرنے کے ساتھ سرمایہ کاری پر ان کی حوصلہ افزائی اور قانونی تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ زراعت کی ترقی کے لئے چھوٹے کاشتکار کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے خصوصی رعایات دی جائیں تو چند برسوں میں ہی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ امید واثق ہے کہ ارباب حکومت ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی زحمت کریں گے۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت