3 158

گریٹر اسرائیل کی طرف ایک اور قدم؟

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان برسوں کے خفیہ معاشقے کا نتیجہ آخر کار دونوں کے درمیان باضابطہ امن معاہدے کی صورت سامنے آیا جس کے تحت متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرکے سفارتی ،تجارتی ،دفاعی سمیت لاتعداد شعبوں میں تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس امن معاہدے کو تاریخی قرار دیا گیا ۔اسرائیل کو عرب دنیا میں تسلیم اور پزیرائی ملنے کا آغازجو آغاز مصر کی طرف سے سے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے سے ہوا تھا اوربعد میں اردن سمیت کئی ہمسایہ عرب ممالک اس عمل میں شامل ہوتے چلے گئے متحدہ عرب امارات کا فیصلہ اس راہ کا اہم پڑائو ہے ۔عربوں اوراسرائیل کے درمیان ہونے والے تمام معاہدات کی طرح اس معاہدے کو بھی امریکہ کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔امریکہ نے اسرائیل کی راہ کے کانٹوں کو پلکوں سے چننے کا جو رواج ڈالا ہے اب وہ اس تجربے کو جنوبی ایشیا میں بھی بروئے کار لانا چاہتا ہے مگرپاکستان اس خطے میں جاں گسل مزاحمت کررہا ہے جس کی وجہ سے بہت سی اُلجھنیں پیدا ہو رہی ہیں۔اس معاہدے کے ضامن ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ابھی اس طرح کے اور معاہدے ہوں گے۔ٹرمپ کا یہ اشارہ دوسرے عرب ممالک کی طرف ہے جن میں ممکنہ طور پر ایک اہم ملک سعودی عرب بھی ہو سکتا ہے۔خطے کے دوملکوں ایران اور ترکی نے اس معاہدے پر ناپسندیدگی کا کھلے بندوں اظہار کیا ہے۔ترک صدر نے اسے حماقت قراردے کر متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔اسرائیل کے لئے اس معاہدے میں یک گونہ خوشی اور اطمینان ہی جھلکتا ہے ۔ایک اور اہم مسلمان اور عرب ملک نے اس کا وجود تسلیم کرلیا ۔جس کا عرب رائے عامہ پر ایک مثبت اثر پڑے گا اور باقی مسلمان ممالک اور ریاستوں میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی فیوض وبرکات سے فائدہ اُٹھانے کی سوچ تقویت حاصل کرے گی ۔امریکہ کے لئے بھی یہ بڑی کامیابی ہے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کبھی ”من وتو” کی تفریق میں نہیں پڑا ۔دونوں یک جان ودقالب جیسے رشتے میں بندھے ہیں ۔ٹرمپ کے لئے یہ ایک ذاتی کامیابی بھی ہے کہ امریکہ کے سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے بعد متحدہ عرب امارات کو اس فیصلے تک لانے کی شکل میں اسے دوسری بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور یہ کامیابیاں اس کی انتخابی فتح کے لئے استعمال ہونے کا پوٹنشل رکھتی ہیں۔متحدہ عرب امارات نے اس سے کیا کھویا اور کیا پایا ؟اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا ۔فی الحال اس معاہدے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل غرب اردن کے علاقے کو اپنا حصہ بنانے اور مزید بستیاں تعمیر کرنے سے باز رہے گا ۔یہ ایک عارضی سپیڈ بریکر ہے جس پر اسرائیل نے اپنا اختلافی نوٹ یوں درج کیا ہے کہ زمین کے معاملے پر اسرائیل اپنے موقف پر قائم ہے گویا کہ اسرائیل اپنی توسیع پسندی کے عزائم کسی طور بھی ترک نہیں کرے گا ۔یوں بھی گریٹر اسرائیل کے ہدف کی طرف پیش قدمی کئے بغیر موجودہ اسرائیل کا وجود بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔اسرائیل ایک خواب ہے اور اس کی تکمیل اور تعبیر عظیم تر بنے بغیر ممکن نہیں۔عرب ملکوں نے اس خوب کو راہ دینا شروع کی ۔عظمت رفتہ کی بحالی اور ماضی کی راکھ میں اپنے وجود کی چنگاریاں تلاش کرنے کا یہ عمل مشرق وسطیٰ میںرواج پاگیا تو مودی بھی اس خطے میں ماضی کی ایسی عظمت رفتہ کی بحالی کا مہا بھارت کا خواب دیکھ رہا ہے۔اس مہابھارت میں پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت بہت سے خاکوں کا وجود نہیں۔یہ ایک فسطائی مائنڈ سیٹ ہے ۔اس لئے پاکستان کے پاس اس عمل کی مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے بعد پاکستان پر دبائو بڑھنا لازمی ہے۔ان دنوں پاکستان کا میڈیا دوبارہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد اور عربوں کی بے وفائیاں گنواکر اس حوالے سے ماحول سازی اور ذہن سازی میں مصروف ہے۔پاکستان کو بتایا جا رہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات قائم ہوتے ہی اس کے ہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی ۔زراعت اور صنعت میں ایک انقلاب آئے گا۔پاکستان کی بنجر زمینیں لہلہانے لگیں گی ۔پانی کا بحران ختم ہوگا اور چہار سو جل تھل ہوگا اور اسرائیل کے تعاون سے پاکستان دنیا کا خوش حال ملک بن کر اُبھرے گا ۔یہ ایک فریب نظر ہے ۔جو اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے ساتھ پاکستان تہتر برس سے چولی سے دامن کی طرح وابستہ اور پیوستہ ہے ۔امریکہ کی تابع فرمانی کا عالم یہ ہے کہ کل تک ہمارا صدر وزیر اعظم آرمی چیف امریکہ کی منظوری کے بغیر نہیں لگتا تھا ۔یہ تو بہت اوپر کا معاملہ ہے شہروں کے میئر اور وزیر تک امریکی سفارت خانے کی اجازت سے لگتے تھے ۔اس مثالی تعاون اور تعلق کے باوجود پاکستان کسی اجڑی ہوئی بیوہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔اب اسرائیل کا سفارت خانہ اسلام آباد میں کھلتے ہی پاکستان پر” من وسلویٰ” کی برسات کی امید دلانا سراب کے تعاقب سے زیادہ کچھ نہیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟