گندم از گندم جو از جو

دور حاضر میں سیاست اور کردار کشی میںتمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے یہ بدعت اب سے نہیں بلکہ کافی عرصے سے وطن عزیز کی سیاست میں رائج ہے لیکن اس درجے کو پہلی مرتبہ پہنچی ہے یہ فصل جس جس نے بوئی ہے اس کو اس سے دگنا کاٹنے کی زحمت اٹھانا پڑی ہے یہی وجہ ہے کہ صاحبان عقل و خردنے بار بار اس سے گریز کا ہر کسی کو اجتماعی و انفرادی مشورہ دیتے رہے ہیں لیکن کسی نے ایک نہ سنی اب سوشل میڈیا کو چھوڑیں میڈیامیں بھی الزام تراشی اور پگڑیاں اچھالنے کے عمل کو باقاعدہ جگہ ملنے لگی ہے اور اس صورتحال میں کمی آنے کی بجائے روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اس طرح کے عوامل کا ہمارا قومی مزاج بننا یا پھر کم از کم اسے سیاست میں مروج ہونا انتہائی افسوسناک امر ہے جس کا تدارک برہمی کے اظہارزبان بندی اورپروگراموں کی بندش یا کسی بھی دیگر ذریعہ سے ممکن نہیں اگر یہ صرف پاکستان کی حدود کے اندر تک کا معاملہ ہوتا تو اس پرسختی سے قابو پانا ممکن ہوتا لیکن یہاں بھی قلوب و اذہان پر پابندی بہرحال ممکن نہیں جس سے قطع نظر پروپیگنڈہ کرنے والے عناصر دور کسی ملک میں محفوظ بیٹھے ہوتے ہیں جونہ صرف سیاسی طور پر زہر اگل رہے ہوتے ہیں بلکہ ان کی ہذیان گوئی اور یاوا گوئی سے ہمارے قومی سلامتی کے ادارے تک محفوظ نہیں اس ساری صورتحال میں بیرون ملک بیٹھے عناصر کی زبان بندی تو ممکن نہیں کم از کم سیاسی عناصر ہی اس امر پر اتفاق کر لیں کہ الزام تراشی کوسیاسی معاملات تک محدود رکھا جائے گا ماضی میں جس کسی نے جس کسی کی پگڑی اچھالی ہے وہ ماضی کا حصہ بن چکا اس پر اگربڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے معذرت کی جائے تو بہت احسن ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو کم از کم آئندہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اس قبیح فعل سے اپنے کارکنوں اور اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو باز رکھنے کی سبیل نکالیں تو بھی قومی سطح پر بڑھتی ہوئی الزام تراشی کی اس لعنت سے چھٹکارا ممکن ہو گا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی کو گالی دیں اور وہ آپ کو جواب میں پھول پیش کرے۔
حلف نہیں میرٹ پرفیصلہ
پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے درخواستیں جمع کرنے والے امیدواروں سے وفادار رہنے کا حلف قیادت اور درخواستیں دینے والے کارکنوں دونوں کے لئے امتحان کا باعث بن سکتا ہے جس میں کامیابی کا واحد فارمولہ کارکنوں کی خواہشات کے مطابق اور پارٹی سے وابستگی اور خدمات کو مد نظر رکھ کر ٹکٹوں کا اجراء ہو گا ابھی ٹکٹوں کے اجراء کا مرحلہ شروع ہی نہیں ہوا ہے تو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیاپر جو مہم پارٹی ٹکٹوں کے حوالے اور آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آنے کے عندیہ کے طور پر دیا جارہا ہے اگرچہ یہ سیاسی دنیا میں کوئی انوکھی بات نہیں لیکن خدشہ ہے کہ حلف کی پاسداری مشکل بن جائے دوسری جانب بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میںکے باقی ماندہ نشستوں کے انتخابی نتائج کے حوالے سے حکومتی عناصر کے دعوئوں کی انتخابی نتائج تصدیق نہیں کرتے بلکہ پہلے مرحلے کی پارٹی پوزیشن واضح ہو گئی ہے جس میں جے یو آئی کو برتری حاصل ہے۔بنا بریں حکومتی جماعت جو بھی فیصلہ کرے یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا کہ سیاسی حقائق کو مد نظر رکھا جائے سو باتوں کی ایک بات کہ حکمران جماعت اقرباء پروری اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ٹکٹوں کے اجراء کی پہلی والی غلطی نہ دہرائے تو یہ بہتر ہو گااور یہی بہتر نتائج کے حصول اور کارکنوں کی تشفی کا باعث امر بھی ہوگا۔
جامعہ پشاور کی توہین
جامعہ پشاور میں ویلنٹائن ڈے پرتعطیل کا اعلان کرکے پشتو گلوکارہ سے گانے کی ریکاڈنگ کی اجازت دینے کا عمل حیران کن ہے جامعہ پشاور کی انتظامیہ کو اس امر کا ادراک ہوناچاہئے کہ درسگاہیں دانش گاہیں ہوتی ہیں جہاں رقص و سرود کی محفل سجانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جب رئیس ا لجامعہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کے کردار و عمل میں تضاد کا یہ عالم ہوتو اس کا یونیورسٹی کے مجموعی ماحول پر اثر انداز ہونا فطری امر ہوگابہتر ہوگا کہ تعلیمی اداروں کو خرافات سے دور رکھا جائے ۔ گورنر خیبر پختونخوا کو بطور چانسلر اس مضحکہ خیز اقدام کا نوٹس لینا چاہئے اور بازپرس کے بعد ذمہ دار عناصر کے خلاف کارروائی یقینی بنانی چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  تمام تر مساعی کے باوجود لاینحل مسئلہ