گھریلو تشدد

بعض اوقات واٹس ایپ پر ایسی چیزیں شیئر ہوتی ہیں کہ اس موضوع کو چننا مجبوری بن جاتی ہے’ میں ایک ایسے ہی برقی پیغام پر کالم تو لکھنے لگی ہوں لیکن اس حوالے سے میں کچھ بھی حوالہ اور تفصیل اس لئے نہیں لکھوں گی کہ مبادا کوئی سرا اس تک جائے اور ان کی کہانی کا تاثر ملے لہذا بطور خاص نہیں بلکہ ایک عام سی صورتحال ہی مد نظر رہے گھر اور خاندان کو مضبوط’ مستحکم و محبت کی بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ہر ایک کو اپنے حصے کا جتن کرنا پڑتا ہے اس کے باوجود مزاج کے تضاد کے باعث اس میں مشکلات پیش آتی ہیں اور یہ ہر گھر کی کہانی ہے کہیں اس میں شدت ذرا زیادہ ہوتی ہے اور کہیں کم لیکن یہ مسئلہ ہے ہر گھر کی کہانی البتہ بدقسمتی سے بعض جگہ بحث و تکرار اور مکالمہ سے بڑھ کر بات تشدد تک پہنچ جاتی ہے آج کل عدم برداشت معاشرے کے ہر طبقہ میں جس طرح رچ بس گئی ہے اعصاب کی کمزوری کا جو عالم ہے ایسے میں بلا سوچے سمجھے غیر ارادی طور پر ہی ہاتھ اٹھنے کی شکایات عام ہیں لیکن اس درجے کا اگر عدم برداشت ہو تو پھر اس کی کسی توجیہہ کی کوئی گنجائش نہیں اگرچہ گھریلو تشدد کی دیگر بھی قسمیں ہیں لیکن جسمانی تشدد اس کی بدترین اور قبیح ترین صورت ہے گھریلو تشدد کو ہم عموماً میاں بیوی کی حد تک ہی لیتے ہیں حالانکہ بد قسمتی سے اب والدین بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں والدین بھی اولاد پر تشدد کرتے ہیں اور بہن بھائیوں میں بھی ایسا ہوتا ہے یہ خاندانی نظام کی وہ برائی ہے جو خاندان کی خوشیاں اور کامیابیاں چھین لینے کا باعث بنا ہوتا ہے لیکن افراد خاندان میں نفرت و عداوت کا موجب بھی بنتا ہے۔ محولہ برقی پیغام کے تناظر میں ہم گھریلو تشدد کو میاں بیوی کے درمیان اس قسم کے تعلقات اور کشیدگی تک محدود رکھتے ہیں عصر حاضر میں یہ خاندان کے تار و پود بکھیرنے اور ازدواجی و خاندانی زندگی کو تباہ و برباد کرنے کا سبب سے بڑا عنصر ہے ۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ شوہر و بیوی کا رشتہ و تعلق پیار و محبت اور ایثار و تعاون کا باہمی رشتہ ہے مگر مشاہدے کی بات ہے کہ یہاں شوہر کی جانب سے بیوی پر جو جسمانی اور جذباتی طور پر کمزور واقع ہوئی ہے جسمانی تشدد ہوتا ہے ہر چند کہ اس کی روک تھام کے لئے ہر سطح پر یہاں تک کہ قانون سازی کے ذریعے بھی روک تھام کی کوشش ہو رہی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے باوجود اس میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔
عورت کو اپنے ہی گھر میں درپیش جسمانی’ جذباتی صنفی زبانی اور معاشی زیادتیاں گھریلو تشدد کی تعریف میں شامل ہیں۔ گھریلو تشدد صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ نہیں بلکہ امریکا’ برطانیہ’ چین’ فرانس’ اٹلی’ سپین’ جرمنی اور برازیل جیسے ممالک میں بھی گھریلو تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ بدقسمتی سے اس تشدد کا سب سے بڑا نشانہ خواتین ہوتی ہیں اس کی وجوہات و اسباب کا تعین آسان نہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ گھر انسان کے لئے جائے قرار و سکون ہو لیکن بدقسمتی سے اس کے مکین ہی ایک دوسرے کا سکون نہ صرف غارت کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر تشدد بھی ہو رہا ہوتا ہے خواتین اکثر شوہر’ ساس اور دیگر سسرالی رشتہ
داروں کے ہاتھوں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جس کی بڑی وجوہات مردوں کا بے جا اور بلاوجہ احساس برتری’ معاشی و خاندانی نا برابری اور افراد خاندان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا ہے۔ عام ہی نہیں مہذب گھرانوں میں بھی بہو کو طنز کا نشانہ بنانا اور طعنہ بازی عام ہے سسرالیوں کی خود ساختہ ہوتی ہیں لڑکی کے میکے والوں اور سسرالیوں کے اسٹیٹس میں فرق ہو تو یہ لڑکی کے لئے طعنہ اور عذاب بن جاتی ہے۔ دیگر وجوہات میں مردانہ نفسیات خاص طور پر بڑا عنصر ہے مرد کی یہ نفسیات کہ وہ عورت سے برتر ہے یہ سوچ اس فرسودہ سماجی روایت کے سبب ہے جو بیوی کی صورت میں عورت کو عزت و احترام نہیں دیتی بلکہ اسے بے حیثیت فرد کی طرح تصور کرتی ہے جس پر مرد کا مکمل اختیار ہے کہ وہ اس کے ساتھ جو چاہے برتاؤ کر سکتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اب عورتیں بھی مردوں پر تشدد کرنے لگی ہیں اب خواتین کے ذریعے کئے جانے والے تشدد اور استحصال کے خلاف مہم کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ انسانی نفسیات کی سب سے بڑی کمزوری طاقتور کا تشدد کرنا ہے ۔ اور ان کے رویوں پرہمارا اعتراض ہوتا ہے اور ہم ان کے رویوں کو ٹھہراکر ان کو مطعون کر رہے ہوتے ہیں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سبھی
ہماری ہی تعریف کے پل باندھیں ہمارا شکریہ ادا کریں گھر کے مرد کبھی بھی خواتین کے حوالے سے اچھے ثابت نہیں ہوتے کم ہی ہوتے ہیں جو عورت کو برابر کاحصہ اور عزت دے رہے ہوتے ہیں مجھے ایک پائلٹ کی زبانی سے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ زندگی بھر مختلف اوقات میں گھر سے ڈیوٹی پر جاتے رہے ہیں مگرکبھی بھی رات کوسوئی ہوئی اوردن میں آرام کرتی اپنی بیگم کوکسی خدمت کے لئے زحمت نہیں دی اوراسی طرح گھر واپسی پر گھر کی اضافی چابیاں پاس رکھ کر کسی کو زحمت دیئے بغیر اپنے گھر آنے کی سعی کرتے رہے ہیں وہ دوسروں کو بھی یہی سمجھاتے دیکھے گئے کہ ان کی نصف بہتر ان کی غلام نہیں شریک حیات ہے وہ کبھی چائے لا کر دے اور پانی پلادے تو ان کا شکریہ ضرور اداکیا کریں آج بھی وہ اسلام آباد کلب میں جب لوگوں کو اپنی پرتعیش زندگی اور اپنی مرحومہ بیگم کی یادوں میں شریک کرتے ہیں تو لوگ رشک کرتے ہیں وہ لوگوں کو یہی درس دے رہے ہوتے ہیں کہ زندگی میں تعلقات اور رشتوں کی قدر کرنا سیکھیں یہ الگ بات کہ زندگی اس طرح کے مہربان لوگوں کے ساتھ ہی نامہربان ہو جاتی ہے اور ان کے پاس صرف یادوں کے چراغ ہی رہ جاتے ہیں۔ بہت سے سوالات اور رویوں کا تعلق ہمارے ظاہر اور باطن دونوں سے ہوتے ہیں یہ ہم سب کی زندگیوں سے وابستہ کہانیاں ہیں کبھی مڑ کر دیکھیں تو واقعات کی ایک لڑی ہوتی ہے خوشیوں کی داستانیں ہوتی ہیں اور محرومیوں کی کہانیاں بھی انسانی زندگی انہی رویوں اور عوامل سے عبارت ہے یہ سارے حالات اور مثالیں ہمارے سماجی وانفرادی رویوںکی جھلکیاں اور اشارے ہیں جو ہم سے اس امر کی متقاضی ہیں ہم آئینے میں اپنا چہرہ دیکھیں یاد رہے کہ ہمارا رویہ اور کردار ہی ہماری شخصیت کا آئینہ دار اور عکاس ہوتا ہے رویہ شخصیت سازی کرتا ہے اس طرح ایک شخصیت سے بیشتر شخصیات متاثر ہوتی ہیں اور معاشرہ سنوارتا چلا جاتا ہے۔ اسلام کے نزدیک خیر و شر انسان کے نفس میں پوشیدہ ہے اسلام میں اخلاق حسنہ کی قدم قدم پر تعلیم ملتی ہے اور مالک کائناتۖ انسان کو عدل و احسان اور صلہ رحمی کا حکم فرماتا ہے بدی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی خاص طور پر تاکید کی گئی ہے بیٹوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی اچھی تعلیم وتربیت اور پرورش پر جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔ ایک مرد پوری دنیا میں سفید پوش بنا پھرتا ہے لیکن گھرمیں بدسلوکی کا مرتکب ہوتا ہے اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد ہی سے مثالی خاندان وجود میں آسکتا ہے دوسری کوئی صورت نہیں ۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں