p613 282

ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مسائل

فاقی حکومت نے تمام صوبوں سے غیرسرکاری ہاؤسنگ سوسائٹیز کی فہرست مانگ لی ہے جبکہ ان سوسائٹیز کے حوالے سے تمام تفصیلات محکمہ بلدیات کی ویب سائٹ پر بھی ڈالنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ محکمہ بلدیات کے ذرائع کے مطابق 11مارچ کو ہونے والی نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی برائے ہاؤسنگ کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے اجلاس میں غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے حوالے سے جامع بریفنگ وفاقی حکومت کو دی جائے گی جبکہ تمام صوبے اب تک اس ضمن میں اُٹھائے جانے والے اقدامات بھی پیش کریں گے اور موجودہ قوانین پر بھی بحث کی جائے گی۔ وفاقی حکومت نے ہدایت کی ہے کہ متعلقہ ویب سائٹس پر غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تفصیلات ڈالی جائیں تاکہ شہریوں کو اس حوالے سے آگاہ کیا جا سکے۔ جہاں تک تمام ”غیر قانونی” ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تفصیلات مختلف اداروں کی ویب سائٹس پر ڈالنے کا تعلق ہے تو اصولاً اس کو سراہا جانا چاہئے تاہم قوانین مرتب کرنے والے یہ فرض کیونکر بیٹھ گئے ہیں کہ عوام میں سے ہر شخص کمپیوٹر لیٹریٹ ہے اور وہ آسانی کیساتھ ان سرکاری ویب سائٹس سے استفادہ کرنے میں آسانی محسوس کرے گا، ہمارے ہاں تعلیم کی جو دگرگوں حالت ہے اور خاص طور پر کمپیوٹر سائنس سے کتنے لوگ استفادہ کر سکتے ہیں اس سوال پر غور کیا جائے تو نتیجہ صفر نہیں تو بمشکل ایک دو فیصد نکل سکتا ہے۔ اس لئے غیرقانونی سوسائٹیز کے حوالے سے اخبارات میں اشتہارات ہی ایک ایسا ذریعہ رہ جاتے ہیں جن سے عام لوگ استفادہ کر کے مبینہ غیرقانونی سوسائٹیز کے چکر میں آنے سے بچ سکتے ہیں جبکہ ایک اور اہم سوال بھی ان سوسائٹیز کے حوالے سے اُٹھتا ہے جنہیں حکومتی سطح پر تو ”غیرقانونی” قرار دیا جارہا ہے البتہ ان ”غیرقانونی” قرار دی جانے والی سوسائٹیزکو خصوصاً خیبر پختونخوا میں جو شکایات لاحق ہیں ان پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی جس سے معاملات گمبھیر ہورہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جاری مختلف پروجیکٹس کے مالکان یعنی پراپرٹی سوسائٹیز ایک عرصے سے رجسٹریشن کیلئے متعلقہ اداروں سے رجوع کر کے اس انتظار میں ہیں کہ ان کے پراجیکٹس کا جائزہ لیکر رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کئے جائیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے جو یقیناً ان چھوٹی سطح کے اداروں کیساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک اختیار کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں تعمیرات کے شعبے سے وابستہ میگا پراجیکٹس مالکان کے دباؤ پر ایسا کیا جارہا ہو تاہم یہ ایک مفروضہ بھی ہوسکتا ہے پھر بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ خیبر پختونخوا کے تعمیراتی اداروں کو جانچ پر کھ کے بعد جلد ازجلد رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کئے جائیں تاکہ عوام بلاخوف وخطر ان سوسائٹیز میں سرمایہ کاری کرسکیں۔
افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا؟
امریکی حکومت نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود ڈھائی ہزار فوجیوں کے مستقبل کے حوالے سے تمام آپشنز بدستور زیرغور ہیں اور یکم مئی سے متعلق وعدے پر کوئی فیصلہ تاحال نہیں کیا گیا۔ ایک خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہ بیان سیکرٹری سٹیٹ بلینکن کے اس بیان کے بعد جاری کیا ہے جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی سربراہی میں امن کوشش کیلئے زور دیا تھا اور جس میں یکم مئی تک امریکی فوجیوں کے انخلاء کی تنبیہہ بھی شامل تھی بلینکن نے افغان صدر اشرف غنی کو ایک خط میں لکھا تھا کہ امریکا یکم مئی تک مکمل انخلاء پر غور کر رہا ہے اور اسی طرح دیگر آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں، افغانستان سے امریکی مسلح افواج کے مکمل انخلاء کے حوالے سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بڑی پیش رفت ہوئی تھی اور وہ اپنے اقتدار کے چار سال مکمل کرنے سے پہلے ہی امریکی افواج کو افغانستان سے نکال کر اپنی قوم کو امن کی نوید سنانا چاہتے تھے تاکہ ان کے اس اقدام سے خوش ہو کر وہ ایک بار پھر امریکی انتخابات جیت سکیں مگر اس سلسلے میں پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے باوجود جبکہ پاکستان بھی افغانستان میں امن کے قیام کیلئے پرخلوص کوششیں کرتا رہا ہے کیونکہ افغانستان میں مکمل امن کے قیام سے پاکستان میں بھی امن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے جس کی تمام تر ذمہ داری خود امریکی انتظامیہ پر عاید ہوتی ہے جو نہایت چالبازی سے امریکی افواج کے انخلاء کی صورت میں افغانستان کی تھانیداری بھارت کو دینا چاہتا تھا تاکہ مستقبل میں نہ صرف امریکہ کے مفادات کو تحفظ مل سکے بلکہ پاکستان کو بھارتی ریشہ دوانیوں کا شکار کر کے اسے سی پیک تعمیر کرنے سے روکنے پر مجبور کیا جاسکے، اس دوران امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کے بعد ٹرمپ کی پالیسیوں کو رول بیک کرنے کی ابتداء ہوئی تو قرائن سے یہی اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج واپس نکالنے کی پالیسی بھی متاثر ہو سکتی ہے اور اب یہی لگتا ہے کہ امریکی حکومت اپنے وعدوں سے مکرنے اور اپنی افواج کو نکال باہر کرنے پر نظرثانی کر رہی ہے حتمی فیصلہ کیا ہو سکتا ہے اس بارے میں اگرچہ فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ بالآخر امریکی حکومت کیا فیصلہ کرنے جارہی ہے اور امریکی حکومت کے حتمی فیصلہ آنے کے بعد ہی خطے کے ممالک اس بات کا جائزہ لے سکیں گے کہ ممکنہ نئے فیصلے سے ان کے مفادات کس حد تک متاثر ہوں گے اس حوالے سے پاکستان کے پالیسی سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام صورتحال پر غور کر کے آنے والے حالات کے حوالے سے اپنی پالیسیاں مرتب کریں تاکہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔
بغیر ماسک سفر پر پابندی
ملک میں کورونا کی تیسری لہر کے باعث پشاور میں بی آرٹی بسوں میں سفر کے دوران ماسک کی پابندی خوش آئند ہے، ترجمان ٹرانس پشاور کے مطابق کورونا وائرس ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جا رہا ہے اور شہری بی آرٹی بسوں میں دوران سفر ماسک لازمی استعمال کریں گے جبکہ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر جرمانہ بھی ہوگا اور بس میں سفر کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔ امید ہے کہ بسوں میں سفر کرنے والے خود حفاظتی کے تقاضوں کے پیش نظر بی آرٹی بسوں میں سفر کے دوران عاید پابندیوں پر پورے خلوص سے عمل کریں گے اور ایسی کوئی صورتحال پیدا کرنے سے احتراز برتیں گے جس سے نہ صرف ان کی اپنی زندگی محفوظ رہے بلکہ ساتھ میں سفر کرنے والے دیگر افراد کو بھی صحت کے لالے نہ پڑسکیں۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس