logo 68

ہار جیت کا بدلتا فارمولہ

اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر پی ڈی ایم کے امیدوار کی کامیابی ہو یا چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کا نتیجہ ہر دو میں اکثریت اقلیت میں اور اقلیت اکثریت میں بدل گئی اراکین قومی اسمبلی اور سنیٹرز اتنے بھی سادہ لوح نہیں ہوسکتے کہ وہ ووٹ بھی درست طریقے سے نہ ڈال سکیں پھر سات کے عدد کا دوسری مرتبہ بازی پلٹنے کا باعث ثابت ہونا بھی پوری طرح اتفاق نہیں ہوسکتا۔غلطی کا امکان ہر جگہ رہتا ہے مگر اس کی شرح میں مماثلت اور فیصلہ کن تعداد نہیں ہوتی پھر اس اتفاق سے کہ ساتوں کے سات ووٹ ایک ہی طریقہ کار کے تحت استعمال ہوئے ان کا مقصد ووٹ کو مشکوک بنانا تھا یا پھر اپنا ووٹ ثابت کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا تھا بہرحال سارا عمل مشکوک ہونے تنازعہ کھڑا ہونے اور شکوک وشبہات اور جو بدگمانی پیدا ہوگئی ہے اس کا فائدہ حکومت کو اور نقصان پی ڈی ایم کا ہوگا سیاسی جماعتوں میں حساب برابر کرنے اور دوسری جماعت خواہ وہ اتحادی ہی کیوں نہ ہو اسے موقع نہ دینے کی ریت ہی سیاست سمجھی جاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کے انہی پتوں نے ہوادی ہے جن پر تکیہ تھا۔اسلام آباد کی نشست پر انتخاب میں کامیابی اور چیئرمین کے عہدے پر ناکامی تک کے عمل میں کسی غیرسیاسی خفیہ ہاتھ کا کردار شاید ہی تھا یہ درست ہے کہ نوے کی دہائی کی سیاست اب کھل کر نہیں ہوتی لیکن طرز سیاست میں تبدیلی نہیں آئی یہ کوئی نئی بات نہیں موجودہ چیئرمین سینیٹ کے پہلے انتخاب اور عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے دوران درون خانہ معاملات پر اسرار رہے اسے ان کی خوش قسمتی ہی گردانا جائے گا کہ کل کے حامی جب مخالف ہوئے تو لگتا ہے کل کے مخالفین نے ان کی کامیابی کی مشکل راہ ہموار کرنے میں کردار ادا کیا کسی کی کامیابی وناکامی سے ہمیں کوئی سروکار نہیں لیکن اس طرز سیاست کا البتہ دکھ ضرور ہے جسے دھوکہ دہی اور دغاوفریب نام اگر نہ بھی دیا جائے تو ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ قرار دینے کی پوری گنجائش ہے۔سیاسی مخالفت اور سیاسی حمایت کوئی عیب نہیں لیکن اس کا اظہار کھل کر ہونا چاہئے اکثریت جب اقلیت اور اقلیت جب اکثریت بننا کھیل بن جائے تو وطن کی سیاست کو تماش بینوں میں گھری طوائف سے تشبیہہ دینے والوں کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا کون ہارا اور کس کی جیت ہوئی یہ اہم نہیں کون کیسے جیتا اور کس کی ہار کیسے ہوئی اس کی اہمیت ہے ملک میں سیاسی نظام،جمہوریت اور پارلیمان سمیت جمہوریت کا چوتھا ستون جس طرح کمزوری اور لرزہ کا شکار ہیںیہ اس نظام اور ملک وقوم کیلئے مثبت نہیں سیاسی عناصر سیاسی دائو پیچ ضرور آزمائیں پوری ہوشیاری سے اپنے کارڈ کھیلیں اصولوں کی پاسداری کا خیال رہے ایسا نہ کر کے نشست تو جیتی جا سکتی ہے مگر مسند کا وقار حاصل نہیں ہوسکتا۔سیاستدانوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ کس سمت میں جارہے ہیں اور ان کے کرداروعمل بارے عوام کے تاثرات کیا ہیں ہر انتخابات میں ووٹوں کی گرتی شرح اور انتخابی عمل میں عدم دلچسپی بے سبب نہیں بلکہ اس نظام اور اس نظام کے چلانے والوں پر عدم اعتماد انتخابات کے جمہوری عمل سے بیزاری اور اسے کار لاحاصل وناکام قرار دینے کا مترادف امر ہے۔عوام ہی جب اپنے مسائل کے حل سے مایوس مہنگائی وبیروزگاری سے تنگ آکر اور سیاستدانوں کے کردار سے مایوسی کا شکار ہو کر لاتعلق ہوکر بیٹھ جائیں تو یہ کن قوتوں کیلئے تقویت کا باعث ہوگا اسے سمجھنے کیلئے بہت زیادہ عقل ودانش کی ضرورت نہیں۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت