ہاں بھلا کرترا بھلا ہو گا

جوتے چوری کرنا اگرچہ رسم بھی ہے ‘ لیکن بہ امر مجبوری بھی لوگ جوتے چرا لیتے ہیں اس حوالے سے رسم کا آغاز کب ہوا یہ تحقیق طلب مسئلہ ہے ‘ کہ جب دولہا میاں شادی کے بعد پہلی بار اپنے سسرال جاتا ہے تو اس کی سالیاں اس کے جوتے چرا لیتی ہیں اور پھر جب تک تگڑی رقم نہ ملے تو جوتے واپس کرنے کوتیار نہیں ہوتیں ‘ یوں اکثر چند سو روپے کے جوتے بے چارے دولہا میاں کو بھاری”پڑ” جاتے ہیں بہ امر مجبوری جوتے چوری کرنے کی وارداتیں عموماً مساجد میں کی جاتی ہیں اور ”ضرورت مند” وہاں سے نمازیوں کی رکوع و سجدے میں جانے کے دوران واردات کر بیٹھتے ہیں ‘ ایسے تجربات سے ہم بھی دو تین بار گزر چکے ہیں خصوصاً اپنے ریڈیو پاکستان ملتان پر تعیناتی کے دوران جو واردات ہمارے ساتھ کی گئی وہ کبھی نہیں بھولتی ‘ ہم اپنی ٹیم کے ساتھ ملتان پریس کلب میں ایک تقریب کی کوریج کے لئے گئے تھے اور مغرب کی اذان ہوئی تو پریس کلب کے مقابل سمت میں چند گز کے فاصلے پر مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے گئے تو نواں نکور چپلی میں ایک طرف رکھ کر جب ہم نماز سے فارغ ہو کر پلٹے تو چپلی ندارد ‘ چونکہ وہ جوڑا ہم نے پہلی بار پہنا تھا اس لئے اس کی چوری کا بہت دکھ ہوا جس کی کسک آج تک باقی ہے ‘ ہم نظیر اکبر آبادی کے آدمی نامہ کے یہ مصرعے بھول چکے تھے کہ
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن ونماز یاں
اورآدمی ہی ان کے چراتے ہیں جوتیاں
جو ان کوتاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ عبادت گاہیں تو مختلف ادیان کی ہوتی ہیں مگر جوتے چور صرف مساجد کا رخ کرتے ہیں کلیسا میں ہر اتوار کو عبادت کے لئے آنے والے اس تکلف سے بے نیاز ہیں یعنی وہ چرچ میں جوتوں سمیت گھستے ہیں اور”جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسنے” کے تکلف بھی نہیں کرتے ‘ ممکن ہے کسی زمانے میں وہاں بھی جوتے چور گھستے ہوں جس کا علاج انہوں نے یہ نکالا ہو ‘ بھارتی فلموں میں مندروں میں آنے والوں کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مندر کی حدود میں داخل ہوتے وقت جوتے مندر کی دہلیز پر اتار دیتے ہیں مگر حیرت اس بات پر ہے کہ مندر کے باہر مانگنے والوں کی کمی نہ ہونے کے باوجود کوئی وہاں سے جوتے چوری نہیں کرتا کہ مندر سے واپس آنے والے انہیں ” پرشاد” تقسیم کرکے ان کی ضرورتیں پوری کر دیتے ہیں اسی طرح سکھوں کے ہاں معاملہ کچھ یوں ہے کہ وہاں خدمت خلق کا شوق پورا کرنے والے زائرین کی جوتیاں سیدھی کرکے ”ثواب” کماتے ہیں ‘ چند برس پہلے ہمارے ایک کرم فرما مرحوم خورشید احمد ایڈووکیٹ نے سکھوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار یوں کیا کہ حسن ابدال میں گوردوارہ پنجہ صاحب کی یاترا کے لئے بھارت سے آنے والے سکھوں کے دربارپنجہ صاحب کے باہر بیٹھ کر جوتے پالش کرنا شروع کر دیئے تھے اس کے چشم دید گواہ ہمارے یار طرحدار ناصرعلی سید ہیں جواس موقع پر خورشید صاحب مرحوم کی معیت میں پنجہ صاحب گئے تھے خورشید مرحوم کی اس ”سکھ پذیرائی” ے متاثر ہو کر سکھوں کے یاتریوں کے وفد کے سربراہ نے انہیں امرتسر کے گولڈن ٹمپل آنے کی دعوت دی تھی اور غالباً بعد میں وہ وہاں گئے بھی تھے اور ان کی وہاں خوب پذیرائی بھی ہوئی تھی۔
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
دراصل جوتے چوری کی جانب ہماری توجہ اس خبر نے مبذول کروائی ہے جو گزشتہ روز بنوں ڈیٹ لائن سے آئی ہے اور جس کے مطابق بنوں کرم پل پر خوبصورتی کے لئے نصب پشتون ثقافت کے عکاس گھوڑے پر سوار”بابا” کے مجسمے کے جوتے چوری ہو گئے ۔ اس سے پہلے گھوڑے اور اس پر سوار بابا کی ٹانگیں نامعلوم افراد نے کاٹ ڈالی تھیں ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ جوتا کسی نے چوری کیا ہے یا تیز بارش ساتھ لے گئی ہیں تاہم ماہرین کے مطابق پیروں کی تراش خراش ایسی کی گئی ہے کہ کسی نے قصداً یہ حرکت کی ہے ۔ اس پر ہمیں قدیم دور کے اس بذلہ سنج شخص سے منسوب وہ واقعہ آیاد آگیا جب اس نے شہر کے نامی گرامی شعرائے کرام کو اپنے ہاں دعوت پر مدعو کیا تاکہ مشاعرہ بھی برپا کیا جائے اور کھانا بھی تناول فرما لیا جائے ‘ موصوف نے اپنے ملازم کو پہلے ہی سارا منصوبہ سمجھا دیا تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے ‘ شعرائے کرام مقررہ وقت پر آئے اور مہمان خانے کے باہر جوتے اتار کر فرشی نشست جما دی ‘ شعر و شاعری کا دور چلنے کے بعد دسترخوان بچھا کر کھانا چن دیا گیا سب مزے لے کر تناول فرماتے جاتے اور تعریف کرتے جاتے ‘ مالک مکان ہر ایک کو مسکرا مسکرا جواب دیتا کھایئے حضور یہ سب آپ کی جوتیوں کے طفیل ہے کھانا کھانے کے بعد جب شعراء کرام مہمان خانے سے باہر نکلے توجوتیاں غائب ‘ ساتھ ہی مالک مکان بھی نظر نہیں آرہا تھا ‘ استفسار کرنے پرملازم نے بتایا ‘ حضور یہ سب آپ کی جوتیوں ہی کے طفیل تو تھا کہ ہم نے آپ سب کی جوتیاں لے جا کر بازار میں فروخت کردی تھیں اور اسی رقم سے کھانا لا کر پیش کر دیا تھا ۔ بقول ظفراقبال
چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک
لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے
ہمیں یاد ہے کہ چند ماہ پہلے کسی شہر میں کسی نے بانی پاکستان کے نصب مجسمے سے عینک غائب کر دی تھی ‘ جبکہ لاہور میں نصب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے(گھوڑے پرسوار)مجسمے کو ضربیں لگا کر توڑ دیا تھا ‘ اب معاملہ بنوں میں نصب پختون ثقافت کی نشانی تک جا پہنچا ہے اور اس مجسمے کے جوتے چرا لئے گئے ہیں’ معلوم نہیں مجسمے والا بابا کس”دلہن” کے گھر گیا تھا جہاں اس کے ساتھ یہ حرکت ہو گئی ۔ اتنا البتہ ہے کہ اس کو تاڑنے والا کوئی نہیں تھا یوں نظیر اکبر آبادی کا یہ مصرعہ غلط ہو گیا کہ
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے