ہنگامہ آرائی میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب

حمزہ شہباز 197ووٹ لے کر پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں، تحریک انصاف اور ق لیگ نے آخری وقت میں ووٹنگ کا بائیکاٹ کر دیا تھا اس لیے وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو کوئی ووٹ نہیں مل سکا۔ ہفتہ کے روز وزیر اعلیٰ کے امیدواروں کے درمیان ووٹنگ ہونی تھی، مگر جونہی اجلاس کا آغاز ہو اورڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی اپنی نشست پر آئے تو تحریک انصاف کے اراکین نے ان کے سامنے لوٹے پھینکنا شروع کر دیئے، تحریک انصاف کے اراکین ہاتھوں میں لوٹے تھامے نعرے لگا رہے تھے کہ وہ منحرف اراکین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیں گے، حالانکہ لاہور ہائی کورٹ نے عثمان بزدار کے استعفے کے بعد وزارت اعلیٰ کی خالی ہونے والی نشست پر 16اپریل کو ووٹنگ کرانے کا حکم دیا تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو 16اپریل کو ہونے والی ووٹنگ عدالت عالیہ کے حکم پر ہونی تھی، جس پر من و عن عمل ہونا ضروری تھا مگر تحریک انصاف کی طرف سے جان بوجھ کر ایک منصوبے کے تحت ووٹنگ کے عمل میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ووٹنگ کا عمل پورا نہ ہو سکے۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں بھی اس عمل کو دہرایا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں جب معاملہ سلجھ گیا تو امید تھی کی پنجاب اسمبلی میں اس کا اعادہ نہیں کیا جائے گا مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ پنجاب اسمبلی میں قومی اسمبلی کے بھی ریکارڈ توڑ دیے گئے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جب عدالت عالیہ ووٹنگ کرانے کا حکم جاری کر رہی ہے تو تحریک انصاف کے اراکین کس بنیاد پر ووٹنگ سے انکاری ہیں، کیا عدالت کا فیصلہ انہیں منظور نہیں ہے؟ اگر عوامی نمائندے آئین و قانون پر عمل داری میں منفی طرز عمل اختیار کریں گے تو قانون پر عمل داری کیسے ممکن ہو پائے گی؟
جمہوری ممالک میں ایوان کے اندر احتجاج ، حریفوں پر تنقید اور سپیکر ڈائس کا گھیرائو معمول کی بات سمجھا جاتا ہے تاہم ڈپٹی سپیکر کے بالوں سے پکڑ کر انہیں تھپڑ مارنے کا واقعہ پہلی بار سامنے آیا ہے۔ حالات کی نزاکت کے پیش نظر آئی جی پنجاب کو پولیس کمانڈوز کے ہمراہ مداخلت کرنی پڑی، پولیس کی مداخلت پر تحریک انصاف کو اعتراض ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر پولیس کو طلب کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی، کیا بہتر نہ ہوتا کہ عدالت عالیہ کے حکم پر ووٹنگ کے عمل کو پر امن طریقے سے پورا ہونے دیا جاتا اور نتائج کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جاتا؟
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ چند ماہ سے حکومت و اپوزیشن آمنے سامنے ہیں، جس سے قومی و پنجاب اسمبلی میں حالات ابتر رہے ، وہ عوامی نمائندے جنہوں نے پالیسی سازی کر کے ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا وہ باہم دست و گریباں ہیں، یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا تحریک انصاف کے پونے چار سال کا اکثر حصہ لڑائی جھگڑے کی نذر ہو گیا۔ عوام نے اس مقصد کیلئے ہرگز ووٹ نہیں دیئے تھے، پنجاب اسمبلی میں ہونے والے ہنگامہ و فساد پر حکومت و اپوزیشن نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر مقدمہ درج کرا دیا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہنگامہ آرائی میں ملوث دونوں گروہ ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، حالانکہ دونوں ہی پورے معاملے کے ذمہ دار ہیں ، جب کہ ابتدا کرنے والے پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ ایسے لوگ بھی ویڈیوز میں دیکھے جا سکتے ہیں جو رکن اسمبلی نہیں ہیں ، ایسے افراد کو اسمبلی کے اندر کس نے آنے دیا، ان کا نام سامنے آنا چاہیے۔ سب سے اہم امر یہ ہے کہ ہنگامہ آرائی قومی اسمبلی میں ہو یا صوبائی اسمبلی میں، ملوث اراکین کے خلاف کبھی تحقیقات نہیں ہوتی ہیں، آخر کیوں؟ جب قانون ساز اپنے آپ کو قانون سے ماوراء سمجھنے لگیں گے تو قانون پر عمل کیسے ہو گا؟ اسی طرح جب اراکین اسمبلی آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں تو بچ بچائو کے لیے سیکورٹی کو طلب کیا جاتا ہے، معاملہ زیادہ بڑھ جائے تو پولیس طلب کی جاتی ہے ۔ معاملے کو سلجھانے کے لیے پولیس کی مداخلت پر اراکین سیخ پا ہو جاتے ہیں کہ اس سے ایوان کا تقدس پامال ہو گیا ہے۔ حالانکہ ایوان کا تقدس اس وقت پامال ہوتا ہے جب اراکین آئینی راستے کی بجائے غیر آئینی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں ہفتہ کے روز جو کچھ ہوا وہ افسوس ناک ہے، اس سارے معاملے کی انکوائری ہونی چاہیے اور ہنگامہ آرائی کا باعث بننے والے افراد کے نام سامنے آنے چاہئے تاکہ قوم جان سکے کہ ایوان کا تقدس پامال کرنے والے کون ہیں۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے