4 157

ہنگامی حالات اور عدالتی نظرثانی کے طریقے

ہنگامی حالات میں اگر بروقت اقدامات کر لئے جائیں تو عمر بھر کیلئے سودمند ثابت ہوتے ہیں۔ کووڈ19 کے دوران دنیا بھر میں حکومتوں نے اس وبائی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ہنگامی اقدامات اور پالیسیاں اپنائیں۔ البتہ اس وبا کیخلاف جنگ کے دوران وضع کی گئی پالیسیوں اور اقدامات نے شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق اور نظرثانی اپیلوں کے طریقے کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ چھ لاکھ پچاسی ہزار سے زائد جانیں نگلنے والی اس وبا کے ردعمل میں حکومتوں نے ہر سطح پر ایسی پالیسیوں کا نفاذ کیا جو آئینی حقوق کیلئے خطرہ بننے کیساتھ ساتھ حکومتوں کے اختیارات کی مروجہ حدود سے بھی تجاوزکا ذریعہ بن رہی ہیں۔
دنیا کے مختلف حصوں میں ایسی پالیسیوں کیخلاف ردعمل سامنے آرہا ہے۔ ناقدین کی یہ دلیل ہے کہ ایسے احکامات انسانوں کے مذہبی آزادی، آزادی رائے کے حقوق کی پامالی کا سبب بن رہے ہیں۔ مزید برآں یہ پالیسیاں آزادانہ تجارت اور کاروبار کے حق اور آزادی سے زندگی گزارنے کے بنیادی حق کو بھی محدود کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ یہ احکامات اور پالیسیاں آئین میں درج حقوق اور وفاقی اور صوبائی سطح پر رائج قوانین سے یکسر متصادم ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان الزامات اور دعوؤں کا مقابلہ کیسے کریں اور خصوصاً عدالتوں کا ان حالات میں کیا کردار ہونا چاہئے؟ پاکستان میں بھی ایپکس کورٹس کا حکومت کی ایسی پالیسیوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب باقی تمام ادارے اس بحران کے دوران بھی کام کر سکتے ہیں اور مقننہ کیوں نہیں کر سکتی؟ عدالت کا مشاہدہ تھا کہ ایسی بحرانی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہنگامی حکم ناموں سے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں اور یہ پہلو اس معاملے کو مزید اہمیت کا حامل بنا دیتا ہے۔
ان تمام خدشات کی روشنی میں چند اہم سوالات کے جواب ناگزیر ہو گئے ہیں۔ یہ تحریر معاملے کی پیچیدگی کے سبب شاید ان تمام کا احاطہ نہ کر سکے البتہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا معمول کی عدالتی نظرثانی کو اس بحرانی صورتحال میں معطل کرنا ٹھیک ہے یا نہیں۔ کیا ایسے چیلنج کئے گئے کیسوں کی سماعت کے موقع پر عدالت کو روایتی، غیرجانبدارانہ عدالتی نظرثانی کے طریقہ کو اپنانا چاہئے یا پھر انہیں ہنگامی صورتحال کیلئے عقلی جواز کی بناء پر موزوں لگتے اقدامات پر حکومت کو کچھ رعایت دینی چاہئے؟ یہاں بعداز ذکر طریق، جسے تعطیلی ماڈل بھی کہا جا سکتا ہے، کیخلاف تین ٹھوس خدشات پائے جاتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ اس تعطل کے جواز کے پیچھے یہ خیال کارفرما ہوتا ہے کہ درپیش بحران عارضی نوعیت کا ہے اور عوامی آزادیوں اور حقوق پر لگائے جانے والی پابندیاں جلد ہی ہٹا لی جائیں گی مگر حقیقتاً اس بحران کے طول پکڑنے کے قوی امکانات موجود ہوتے ہیں اور موجودہ وباء میں تو بروقت ویکسین یا دوا کے نہ بننے کے سبب ان پابندیوں کی مدت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور نتیجتاً یہ عارضی سمجھے جانے والی پابندی کچھ عرصہ بعد معمول بننے لگتی ہے۔
یہاں یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ خطرہ کرونا وبا کی نوعیت کے سبب اور بھی اہم ہے کہ اس سے نمٹنے کیلئے تالہ بندیاں اور سماجی فاصلے جیسی پابندیاں اس کے ردعمل میں مرکزی حیثیت کی حامل ہیں۔ عوامی سطح پر تالہ بندیاں کر کے لاکھوں افراد کو گھروں تک محدود کر دینا اور معمول کے سماجی اور کاروباری روابط پر پابندی جیسے اقدامات کی نظیر اس سے پہلے صحت عامہ کے حوالے سے رونما ہونے والی کسی بھی ہنگامی صورتحال میں نہیں ملتی۔ اس طرح کی پابندیاں عدالتی نظرثانی کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیتی ہیں تاکہ ان پابندیوں میں حدود سے تجاوز کو روکا جاسکے۔ کرونا وائرس گزرتے وقت کیساتھ جس طور بڑھا ہے اس سے یہ واضح ہے کہ ہمیں ابھی تالہ بندیوں اور شہری حقوق پر پابندیوں کے مزید دور دیکھنا پڑیں گے اور اگر ابتدا میں کئے گئے ہنگامی اقدامات اور پابندیوں کو ہٹایا بھی لیا گیا تو یہ بعد میں دوبارہ نافذ کی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت یہ سمجھنا درست نہیں کہ وبا کا کلی طور پر اختتام ہو چکا ہے اور یہ بحران بھی جلد اختتام پذیر ہو جائے گا۔ فی الوقت یہ اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے کہ اس وبا کے مکمل خاتمے میں مزید کتنا عرصہ لگے گا۔
اس ماڈل کے حق میں دوسرا اہم نقطہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس بحرانی صورتحال میں حکومتی اقدامات پر روایتی عدالتی نظرثانی کا طریق اپنانا زیادتی ہوگی اور ایسی سخت اپروچ سے حکومت کے بیماری کیخلاف مؤثر ردعمل میں فرق پڑے گا۔ دنیا بھر میں روایتی نظرثانی کرنے والی عدالتوں نے یا تو حکومتوں کے ہنگامی اقدامات کو برقرار رکھا یا پھر ان پر جزوی طور پر عملدرآمد کرنے کے احکامات جاری کر دئیے۔ اس کی مثالیں ہمیں کراچی میں چاند رات کو کاروبار کھولے رکھے جانے کے عدالتی فیصلے، عوام کو مساجد جانے کی اجازت دینے کیلئے حکومت کو احکامات جاری کرنے، امریکہ میں اسلحہ رکھنے کے حق کو تحفظ دینے اور گرجا گھروں میں گاڑی میں بیٹھے حاضری دینے جیسے اجازت کی صورت نظر آتی ہے۔ کئی جگہوں پر عدالتوں نے یکسر ہی ایسے حکومتی احکامات کو اختیارات کے عدم توازن کو بنیاد بناتے ہوئے کالعدم قرار دیدیا جو بعدازاں حکومتوں نے مقننہ سے منظوری کے بعد دوبارہ نافذ کر دئیے۔ جاری ہے۔
(ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن