ہو ا کا رخ

ٹھٹھرتی سردی پڑ رہی ہے ایسے میں جل بلی خبریں گرما گرمی پیدا کررہی ہیں ایک ہی دن میں درجن بھر بلبلاتی اچھلتی پھدکتی خبریں چلی آتی ہیں یہا ں دم خشک ہو تا ہے کہ کس پر بات کی جائے کس کو چھو ڑ دیا جائے کونسی اہم ہے کونسی غیر اہمیت کی حا مل ہے اس ادھڑ بن میں دن گزر جا تا ہے ، ویسے بھی ایا م مو سم سرما کے دن چھوٹے ہو تے ہیں جس طر ح اقتدار کی گھڑیا ں مختصر رہ جا تی ہیں خبر وں کے اس بہاؤ میں اہم خبر یں بھی تنکے کی طر ح بہہ جاتی ہیں، ایک خبر جو عام سی ہو ا کر تی ہے وہ بھی بعض حالات کے ہتھے چڑھ کر اہم تر ہو جایا کر تی ہے ، چنا نچہ کوئی کہتا ہے کہ ایک پیچ دھل گیا ہے کوئی کہتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہو ا ہے تاہم نقا د اسی تنا ظر میں خبرنا مہ تحریر کر رہے ہیں ہو ا کچھ یو ں کہ آذر بائیجا ن کے قومی دن کی تقریب تھی جس میں ظاہر ہے کہ اہم شخصیا ت مدعو تھیں جن میں سیاست دان ، اعلیٰ حکام اور دیگر احباب بھی شامل تھے ، ان مہمان گرامی میں چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنر ل ندیم رضا بھی تقریب میں رونق افزاء تھے ، کہ اسی اثنا ء میں جنرل ندیم رضا کی نگا ہو ں نے ایک دوسری میز کے ساتھ لگی کر سی پر بیٹھے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو پا لیا ، چنا نچہ جنر ل صاحب اپنی کرسی سے اٹھے اور ایا ز صادق کے جن کا شما ر نو از شریف کے سیاسی قربت دار وں میں ہوتا ہے قریب پہنچے اور مصحافہ گیر ہو کر اپنی نشست کی طر ف لے آئے تاہم وہ اس وقت چونک گئے جب جا تے ہوئے جنرل صاحب نے ایک کر سی ایاز صادق کے لیے مختص کر دی تھی مگر واپسی پر دیکھا کہ وہاں پی پی کے مرکزی رہنماء ر حمان ملک بر اجما ن ہیں ، خیر ان سب میں سلا م دعا ہوئی پھر ایا ز صادق صاحب کے لیے ایک دوسری کر سی کا بندوبست کر نا پڑ ا ، خبر وںکے کھو جیو ں نے اس پر بھی کھوج لگا ڈالا ، خاص کر سوشل میڈیاپر بڑا چرچا ہوا کہ پی پی اپنے اصلی انتخابی حریص پر گہر ی نظر رکھے ہو ئے ہے ، ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن کے ایک لیڈر کا ایک اعلیٰ فوجی افسر سے ملنا خبریت کے زمر ے آتا ہے چنا نچہ خبر نگا ر اس ٹو ہ میں لگ گئے کہ کیا بات چیت ہو ئی ، ویسے یہ ایک معمول کی ملا قات ہی تھی ، البتہ جب کچھ صحافیوں نے ایا ز صادق صاحب سے رابطہ کر کے کچھ خبر جانا چاہیے تو ایا ز صادق صاحب نے بس اتنا بتایاکہ ان کی جنر ل ندیم رضا سے پہلے کوئی راہ رسم نہیں تھی چونکہ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے ہیں تو ان کو شناخت کر لیا گیا اور بس یہ رسمی سی ملا قات تھی اس سے بڑھ کر کچھ نہ تھا ، مگر کیا کیا جائے یا رلوگ اس کو بھی ایک پیچ سے نتھی کر نے لگے ہیں ۔ایک بڑی خبر یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلا س جو گیا رہ نو مبر کو ہو نا تھا وہ ملتوی کر دیا گیا ہے ، اس مشترکہ اجلا س میں کئی اہم بل پیش کیے جا نے تھے جن میں ایک بل الیکڑانک ووٹنگ مشین اور دوسر نیب آرڈی ننس کا بل بھی شامل ہے جس کو اپو زیشن مستر د کرچکی ہے ، ایک روز پہلے ہی حکومت کو اپوزیشن کی جا نب سے ایک بل پر رائے شماری میں شکست کا سامنا کر نا پڑ گیا ہے اس روشنی میں پا رلیمنٹ کا اجلا س اہمیت کا حامل ہو گیا ہے ۔وزیر اعظم نے اپنے ارکان پارلیما ن اور اتحا دیوں کو ایک ضیا فت میں مدعو کیا ، تاہم وزیر اعظم عمر ان خان کی ضیا فت میں پچھتر ارکان پارلیما ن نے شرکت نہیں کی ، یہا ں بھی وزیر اعظم نے دھو اں دھا ر تقریر فرمائی اور کہا کہ وہ مشترکہ پا رلیمنٹ کے اجلا س میں مجا ہد بن کر حصہ لیں اور انتخابی اصلا حات (الیکڑانک ووٹنگ مشین ) کے حق میں ووٹ ڈالیں کیو ں کہ وہ انتخابی دھاندلی کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں تاہم حال ہی میں ڈسکہ کے حلقہ این اے75 میںہو نے والی دھا ندلی کی تحقیقاتی رپو رٹ کا انھوں نے کوئی حوالہ نہیںدیا ، کہ اس رپو رٹ میں دھبہ کس کے منہ پر لگایا گیا ہے ، ان سے بڑھ کر ایک خبر یہ بھی رہی کہ عدالت اعظمٰی پا کستان کے ایک گھنٹہ کے نو ٹس پر وزیر اعظم عمر ان خان عدالت اعظمٰی کے سامنے پیش ہو گئے ، جس معاملے پر ا ن کی پیشی ہوئی وہ بہت اہمیت کی حامل ہے ان کی طلبی اے پی ایس اسکول پشاور کے سانحہ پر تھی جس کو چودہ سال کا عرصہ بیت گیا اور ہنو ز اس کے ذمہ دارو ں کا تعین نہیں کیا گیا ،اصل مجر م یا ملز م کا سراغ رپو رٹ کے بعد تفتیش میں لگایا جا تا ہے ، اگر دعویدا روں کو تفتیش سے اتفاق نہ ہو تو بھی عدالت میں نا مز د افرا دکے خلاف مقدمہ چلتا ہے اور وہا ں ان کو گناہ گا ر یا بے قصور ہو نے کا فیصلہ ہو تا ہے ، اسکول کے شہداء طلبا ء کے والدین کی جانب سے نا مز د کیے جا نے کے باوجو د ہنو ز ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے جبکہ وہ بار بار آیف آئی آر کا مطالبہ کر رہے ہیں ، عمر ان خا ن عدالت تشریف لائے ان کے حامی اسے ان کی طرف سے آئین اور قانو ن کی پا سداری کرنے کا اقدام قرار دے کر سراہ رہے ہیں ، لیکن اس سے پہلے وزیر اعظم یو سف رضا گیلا نی ، نواز شریف اور راجہ نا در پر ویز بھی پیش ہو چکے ہیں ، بس اس مر تبہ فرق اتنا تھا کہ محولہ بالا وزراء اعظیم سائلین کے گیٹ سے حاضر ہوئے جبکہ قانو ن اور آئین کے پا سبان ججز گیٹ سے اپنے پو رے پر وٹوکو ل کے ساتھ تشریف لائے ان کی آمد سے پہلے ہی عدالت اعظمیٰ کی سیکو رٹی فورس کے علا وہ وزیرا عظم کی سیکو رٹی فو ر س نے انتظام سنبھال لیا تھا یہا ں واضح رہے کہ سندھ کے ایک پولیس آفیسر راؤانو رعلی جن پر چار سو سے زیا دہ افرا د کے قتل کا الزام ہے وہ بھی عدالت اعظمٰی ججز گیٹ سے فل پر وٹوکول کے اہتما م سے حاضر ہو ا تھا ۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟