یا الٰہی یہ کیسے بندر ہیں؟

میاں والی میں ایک سنگدل اور سفاک باپ کے ہاتھوں سات روزہ نومولود بچی کے وحشیانہ قتل پر اکبر اللہ الہ آبادی کا یہ مشہور شعر زبان پر آ گیا:
یا الٰہی! یہ کیسے بندر ہیں؟
ارتقا پر بھی آدمی نہ ہوئے
مجھے خاص طور پر بندروں سے معذرت مطلوب ہے۔ اس لیے کہ یہ بات یقینی ہے کہ ایسی بربریت اور خود اپنی ہی نوع کی بہیمانہ ہلاکت کا ارتکاب بندروں کے ہاں مروج نہیں۔ نہ جانے ہم کیسے سماج میں بستے ہیں؟ ظلم جبر اور جہالت کے ماحول نے ہماری انسانی شناخت کو کس طرح کچل ڈالا ہے۔ ہم ایسے اندوہناک جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں جن کا ارتکاب جانوروں کے ہاں بھی ممکن نہیں۔ قدرت کے دست کار ساز نے کتے کو وفا سکھلائی تاکہ ہم میں سے ایسے جلاد صفت انسان نما وجود خود اپنی اقدار سے بے وفائی کرتے ہوئے شرم محسوس کریں۔ لیکن عجب تماشہ ہے کہ شرم ہم سے کوسوں دور ہے۔
مجھے اس واقعے کی بھرپور مذمت مقصود ہے۔ میرا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ میں اس شرمناک واقع کی تشہیر کرنا چاہتا ہوں۔ قارئین کرام!مجھے صرف یہ بتلانا ہے کہ جہالت ایک ذاتی صفت ہے جبکہ جاہلیت ہمارے ماحول میں مضمر وہ منفی خصوصیت ہے جس کی آغوش میں جہالت پنپتی ہے۔ جہالت جاہلیت کی زمین پر تھرکتی ہے جس کے تخم سے معاشرے میں کوڑھ اگتا ہے اور جس کی سڑانڈ سے بالاخر سارے معاشرے میں تعفن پھیل جاتا ہے۔
ہمارے ہاں اس جاہلیت کا محرک روزافزوں مہنگائی اور چار سو منڈلاتے غربت کے بادلوں میں سے جھانکتی غیریقینیت کی صورت حال ہے۔ زمانہ قبل از اسلام کے ایام جاہلیت کی طرح ہمارے ہاں بھی اکثر بیٹیوں کی پیدائش کو کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس جہالت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں اکثر بیٹوں کی پیدائش کو غیریقینیت کے ماحول میں کمانے والے ہاتھوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر ہمیں ایسی ہی شدید غیر یقینیت سے عملا واسطہ ہو تو مستقبل کے امکانات کے بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے لیے آئندہ زندگی کی آسائشوں کے حصول میں بیٹا زیادہ معاون ثابت ہو گا یا بیٹی۔
مجھے یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کو کس قدر وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ میں نے چند سال پہلے قرآن کریم کو سلسلہ وار ترجمہ کے ساتھ پڑھنا شروع کیا تھا۔ مجھے یہ جان کر شدید حیرانگی ہوئی کہ اسلام نے حقوق نسواں کی ادائیگی کی ضمن میں مردوں پر کہیں زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا ہے۔ نہ صرف یہ کہ عورتوں کو تمدنی، معاشرتی اور عائلی زندگی میں تمام تر بنیادی انسانی حقوق میسر ہیں بلکہ اللہ عزو جل نے اپنے کلام میں پوری ایک سورت عورتوں کے حقوق اور معاشرے میں انکی عزت، وقار اور مقام و مرتبے کی وضاحت میں نازل فرمائی۔ اس سے بڑھ کہ ایک عورت کی کیا پزیرائی ممکن ہو سکتی ہے کہ رب کائنات نے انسان کی بقائے نسل کے لیے ایک عورت کے درد زِہ کی اہمیت جتلائی اور خود پیغمبر خدا نے جنت اور اسکی ابدی نعمتوں کو ایک ماں کے قدموں کی دھول قرار دیتے ہوئے تاریخ انسانیت میں عورت کی عظمت کے نقوش ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیئے۔
میاں والی کا واقعہ ہماری معاشرتی زندگی کا ایک المیہ ہے۔ ہمارے ہاں کچھ افراد کے لیے معاشرتی وجوہ کی بنیاد پر بیٹوں کی اہمیت زیادہ ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ ایسے لوگ اب کیسے فراموش کر پائیں گے کہ میاں والی میں حالیہ بربریت اور وحشت کا ارتکاب کرنے والا بھی کوئی بیٹا ہی تھا۔ جنس کی بنیاد پر اپنی نوع کا قتل ایک سنگین اقدام ہے جس نے ہر اس نفس کو اشک بار کیا جس کے دل میں انسانیت کی رمق ابھی تھوڑی سی بھی باقی ہے۔
نہ جانے ہم تقدیر سے کیوں بھاگتے ہیں۔ حالانکہ تقدیر انسان کے لیے دست قدرت کا لکھا ایک ایسا نوشتہ ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ کسی انسان کی تقدیر میں بیٹا ہے یا بیٹی اور یہ کہ اولاد انسان کے لیے مستقبل میں نیک فال ہے یا نہیں۔ یہ فیصلے قطیعت کے ساتھ مشیت الہی کے طابع ہیں۔ انسان اپنے اعمال کی انجام دہی میں صرف فرائض کی ادائیگی کا مکلف ہے۔ ہم میں سے اکثر اس سب میں تو سر کھپاتے ہیں جو خدا نے کرنا ہے لیکن وہ سب نہیں کرتے جو ہم نے کرنا ہے۔ ایک سوال نہایت اہم ہے ۔۔۔۔ اگر کسی کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہی تقدیر لکھ دی گئی ہو تو کیا ایسی بیٹی کی ملکیت سے انکار تقدیر کی نفی اور خود خالق کائنات کی نافرمانی اور اسکی اطاعت سے انکار نہیں ہو گا؟ ذرا سوچیئے!

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ