5 131

یہ آئینے ہیں انہیں ٹوٹنے کا موقع دے

سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا ایک بار پھر وہیں سے جوڑتے ہیں حالانکہ ملکی سیاسی حالات ابھی اس سے گریز کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں تاہم قصہ پارینہ سے آنکھیں بند کرنا بھی ممکن نہیں،تو جس شیشہ گردی کے ہنر پر گفتگو ہورہی تھی اس میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ دنیا نے جب شیشے کے ظروف بنانے پر توجہ دیتے ہوئے اس کو نئی جہتوں سے آشنا کرنا شروع کیا تو نفاست کے ساتھ ساتھ نت نئے تجربات کے ذریعے اسے محفوظ بنانے پر بھی توجہ دی کیونکہ کانچ کے برتنوں کی ناز کی تو میر تقی میر کے بقول گلاب کی پنکھڑی کی مانند ہونے کی بناء پر اس میں معمولی سی بے احتیاطی سے بال آنے کے امکانات ہمیشہ روشن رہتے تھے،سو انگریزی کے ایک لفظ ان بریکیبل کا استعمال کرتے ہوئے ایسے گلاس اور دیگر برتنوں کی تیاری شروع کردی جس کو انگریزی ہی کے ایک اور لفظFragile(جو تلفظ کے حوالے سے فریجیل ہے اور یار لوگ اسے فریجائل بولتے ہیں) کے دائرے سے آزاد کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کرلی گئی،یعنی اب ایسے برتن بھی بنائے جارہے ہیں جو شیشے کی نازکی کے باوجود ٹوٹنے یا پھر مائیکرو ویو اوون میں رکھنے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتے اس حوالے سے جب ابتداء میں شیشے کے گلاس مارکیٹ میں آئے تو ان کے نہ ٹوٹنے کے بارے میں دعوئوں کا بھی یار لوگوں نے یہ کہہ کر مذاق اڑانا شعار بنالیا تھا کہ بے شک ان کو سوفٹ کی اونچائی سے زمین پر گرانے سے ان کی سلامتی کی گارنٹی 98فٹ تک دی جاسکتی ہے دراصل ایسے گلاسوں کے پیندے کو بہت بھاری رکھا جاتا اور اوپر کی طرف اچھالنے کے بعد پیندے کے بھاری پن کی وجہ سے نیچے آتے ہوئے ان کا پیندا ہی پہلے زمین پر آکر لگتا جس کی وجہ سے ان کے ٹوٹنے کے امکانات صفر ہوتے تاہم اگر غلطی سے ہاتھ سے گرتے ہوئے پہلے اوپر کا حصہ زمین سے لگ جاتا تو گلاس کے ٹکرے ٹکرے ہوجاتے پھر شاعر کے بقول دل اور گلاس کے درمیان کوئی فرق دیکھنے کو نہ ملتا یعنی
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیئے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں
یوں ان نہ ٹوٹنے والے گلاسوں کے منظر عام پر آنے کے بعد کم از کم ہوٹلوں میں صرف پانی پی کر نکل جانے والے گاہکوں کے پیچھے ایسا کوئی نعرہ سنائی دینے کے امکانات ختم ہوگئے کہ”کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا ہے،بارہ آنے”اور اب تو دنیا اتنی ترقی کر گئی ہے کہ گاڑیوں کے ونڈوسکرین سائیڈ کی کھڑکیوں کو بلٹ پروف تک بنا لیا گیا ہے جبکہ عمارتی شیشوں میں بھی ایسی کاریگری ہورہی ہے کہ ان کے ٹوٹنے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔اب کوئی شاعر ریحانہ قمر کی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ
یہ خواہشیں ہیں انہیں کیا لئے لئے پھرنا
یہ آئینے ہیں انہیں ٹوٹنے کا موقع دے
بلکہ فیض احمد فیض کا خیال بھی”نام”کے زمرے میں پناہ لینے پر مجبور رہا ہے کہ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں بہرحال یہ تو شیشہ گری کی صنعت کے حوالے سے کچھ باتیں تھیں،جبکہ اصل معاملہ تو گردنر اور گردیوسف کے برتنوں سے شروع ہوئی تھی جو جاذبیت اور خوبصورتی کے علاوہ اپنی دیگر خصوصیات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے یعنی وہ جو مبینہ طور پر ان میں زہر کو برداشت نہ کرنے کی خاصیت تھی اور جس کے طفیل ان کو روس اور ہمسایہ ریاستوں میں شاہی خاندانوں اور امرائو رئو سا کے گھرانوں میں اسی خاصیت کی بناء پر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا،تاکہ ان کے خلاف سازشی افراد زہر دے کر انہیں مارنے میں کامیاب نہ ہوسکیں،البتہ ان برتنوں کی تمام اعلیٰ صفات کے باوجود ان کی پائیداری کی ضمانت نہیں دی جاسکتی تھی،خاص طور پر آگ کی تپش ان سے برداشت نہیں ہوتی تھی،اسی لیئے ہم نے اپنے لڑکپن کے دور میں پشاور میں ایسے کاریگر دیکھے جو روس،بلغاریہ،بیلجئم وغیرہ کے بنے ہوئے برتنوں یعنی چائے دانیوں،پیالیوں،نیم کاسہ(بڑے سائز کی پیالی)رکابیوں وغیرہ کی مرمت کا کام کرتے تھے اور انہیں جست کے تار کو خاص انداز میں کوٹ کر ان کے ٹانکے بنا کر ٹوٹے ہوئے برتنوں کو جوڑ دیتے تھے اور درز(شکستہ حصوں) میں ایک مسالہ لگا کر بھر دیتے جس کی وجہ سے ان سے چائے،قہوہ،یا شوربا کے رسنے کے امکانات ختم ہوجاتے اس سلسلے میں چائے دانیوں کو جست ہی کی چادر کے پیندے لگا کر انہیں چائے کے ہوٹلوں میں آگ پرر کھ کر ان میں چائے اور قہوہ تیار کرنا بھی آسان ہوجاتا اس قسم کے کاریگر گنتی کے دوچار ہی تھے جو شہر کے مختلف بازاروں میں دکانیں سجائے بیٹھتے تھے جبکہ ایک دو مختلف علاقوں میں پھیری لگا،آوازیں دیکر گھروں میں پڑے ہوئے ٹوٹے برتنوں کی مرمت کرتے بھی نظر آجاتے،اب یہ لوگ بھی ناپید ہوگئے ہیں کیونکہ کراکری کی صنعت بھی کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور وہ جو انسان نے مٹی کے برتن بنانے سے ابتداء کر کے،کاٹھ کے برتن کو زیادہ مضبوط اور دیر پا تصور کرتے ہوئے ان کا استعمال شروع کردیا تھا، (جاری ہے)
ترقی کے منازل طے کرتے کرتے یہ فن دھاتوں پورسلین،شیشے اور پلاسٹک کے برتن بنانے میں ڈھلتا چلا گیا،کمہار اب بھی چاک پر نت نئی ڈیزائن کے برتن بنارہا ہے،لکڑی کے برتن بھی جدت سے آشنا ہو چکے ہیں،تانبے،جست ،جرمن سلور کے برتنوں کی بھی بہار ہے اور یہ فن مزید کتنا سفر طے کرے گا کہ اب تو ڈسپوزیبل کا دور شروع ہوا ہے۔(جاری)

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام